سرینگر// وادی کشمیر میں آئے دنوں سرکاری فورسز کے ہاتھوں عام لوگوں کے مارے جانے کو لیکر آج اسمبلی میں زبردست ہنگامہ ہوا اور حزب اختلاف کی سبھی پارٹیوں نے اس پر احتجاج کیا۔اس دوران وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے مذاکرات کو کشمیر کی صورتحال کا واحد علاج بتاتے ہوئے تاہم الزام لگیا ہے کہ ریاست کے اندر کچھ سیاسی قوتیں صلح جوئی کی کوششوں کو ناکام بناتی رہی ہیں۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال ”جمہوریت سے انکار“کا نتیجہ ہے۔اسمبلی میں آج پہلے دن تزیت کی تحریک کے دوران مختلف ممبران کی جانب سے وادی کی موجودہ صورتحال پر گرم گفتار تقریروں پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے وادی کی موجودہ صورتحال کو سلیقے سے حزب اختلاف نیشنل کانفرنس کا کیا دھرا بتانے کی کوشش میں کہا کہ 1987کے انتخابات نے جموں کشمیر کی تقدیر بدل دی اور اسے موجودہ پریشان کن صورتحال میں پھنسادیا۔
”مذاکرات کے حوالے سے خود کشمیر میں بھی مزاحمت ہوتی رہی ہے۔جب وزیر اظم آئی کے گجرال نے قاضی گنڈ میں کہا کہ وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ،ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اسمبلی میں آکر کہا کہ اگر نئی دلی نے علیٰحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کئے تو وہ ہندوستان کے مخالف ہو جائینگے“۔
محبوبہ مفتی نے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین اور لبریشن فرنٹ کے لیڈر یٰسین ملک کا نام لیا اور کہا کہ انہیں شائد کوئی اور نام لینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔واضح رہے کہ 1987میں نیشنل کانفرنس کی حکومت کے دوران آج کے علیٰحدگی پسندوں نے مسلم متحدہ محاذ کے اتحاد کے تحت انتخاب لڑا تھا اور مانا جارہا ہے کہ اس اتحاد کو بڑی کامیابی ملتی کہ اگر بدترین قسم کی دھاندلی کرکے انتخابی نتائج کو بد ل نہیں دیا گیا ہوتا۔چناچہ سید صلاح الدین بھی ایک امیدوار تھے تاہم انہیں مبینہ طور دھاندلی کرکے ہرادئے جانے کے بعد وہ اور ان جیسے دیگر لوگ مایوس ہوکر بندوق اٹھانے پر مجبور ہوگئے۔
محبوبہ مفتی نے کہا کہ انسے وزیر اظم کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لئے کہا جاتا ہے لیکن وہ پوچھنا چاہتی ہیں کہ کیا کانگریس کے دور میں وزیر اعظم کو آمادہ کیا جا سکا تھا۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی لاہور گئے تھے لیکن اسکے بعد پٹھانکوٹ کا حملہ ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ ہندوپاک کے مابین اگر کوئی پیشرفت ہوئی بھی تھی تو وہ فقط واجپائی کے دور میں ہوئی تھی جبکہ منموہن سنگھ پاکستان میں اپنا گاو¿ں دیکھنے تک بھی نہیں جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ جب خود انہوں نےاپوزیشن میں رہتے ہوئے1996میں مذاکرات کی وکالت کی وزیرِ اعلیٰ (فاروق عبداللہ)نے کہا کہ علیٰحدگی پسندوں کو جہلم میں پھینک دیا جانا چاہیئے“۔
نیشنل کانفرنس کو مذاکرات کی کوششوں کو ناکام بناتے رہنے کا ذمہ دار بتاتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا”مذاکرات کے حوالے سے خود کشمیر میں بھی مزاحمت ہوتی رہی ہے۔جب وزیر اظم آئی کے گجرال نے قاضی گنڈ میں کہا کہ وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ،ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اسمبلی میں آکر کہا کہ اگر نئی دلی نے علیٰحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کئے تو وہ ہندوستان کے مخالف ہو جائینگے“۔انہوں نے کہا کہ جب خود انہوں نےاپوزیشن میں رہتے ہوئے1996میں مذاکرات کی وکالت کی وزیرِ اعلیٰ (فاروق عبداللہ)نے کہا کہ علیٰحدگی پسندوں کو جہلم میں پھینک دیا جانا چاہیئے“۔نیشنل کانفرنس کے ممبران کی جانب سے ریاست میں سرکاری دہشت گردی جاری ہونے کا الزام لگائے جانے کے ردعمل میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ انہیں اپنے دور اقتدار کے وہ حالات یاد کرلینے چاہیئں کہ جب کہیں اینکاونٹر ہوتا تھا تو پوری بستی کی بستی اس ڈر سے بھاگ جایا کرتی تھی کہ انہیں پکڑ کر انسانی ڈھال اور گائیڈ بنایا جائے گا۔
علیٰحدگی پسندوں پر مذاکرات سے بھاگنے کا الزام لگاتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ گزشتہ سال شرد یادو اور دیگر ممبران پارلیمنٹ سرینگر آئے تو انہوں نے ایک خط لکھ کر حریت قائدین سے نئی دلی سے آئے اس وفد سے ملنے کی درخواست کی لیکن انہوں نے نہیں مانا۔محبوبہ مفتی نے کہا”ایسے میں ہم کیا کرسکتے ہیں“۔