اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَالنحر(سورہ الکوثر :2) نماز پڑھئے اپنے رب کے لئے اور قربانی کیجئے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کرنے کاحکم ( امر) دیا ہے، عربی زبان میں امر کا صیغہ عموماً وجوب کے لئے ہوا کرتا ہے۔ وَالنحر کے متعدد مفہوم مراد لئے گئے ہیں مگر سب سے زیادہ راجح قول قربانی کرنے کا ہی ہے۔ اردو زبان میں تحریر کردہ تراجم وتفاسیر میں قربانی کی ہی معنی تحریر کئے گئے ہیں۔ جس طرح فَصَلِّ لِرَبِّکَ سے نماز عید کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے اسی طرح وَالنحر سے قربانی کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ (اعلاءالسنن)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد ، ابن ماجہ۔ باب الاضاحی واجبہ ھی ام لا، حاکم) اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے قربانی کی وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر سخت وعید بیان فرمائی ہے اور اس طرح کی وعید عموماً ترک واجب پر ہی ہوتی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے نماز عید سے قبل قربانی کرلی تو اسے اس کی جگہ دوسری قربانی کرنی ہوگی۔ قربانی نماز عید الاضحی کے بعد بسم اللہ پڑھ کر کرنی چاہئے۔ (بخاری۔کتاب الاضاحی۔باب من ذبح قبل الصلاة اعاد، مسلم۔کتاب الاضاحی۔باب وقتہا)
نبی رحمتﷺ نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکر فرمایا : اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر قربانی کرنا ضروری ہے۔ ( ابوداو¿د۔باب ماجاءفی ایجاب الاضاحی، ترمذی۔ باب الاضاحی واجبة ہی ام لا)
قربانی کرنے کی فضیلت:
ام المومنین حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: ذی الحجہ کی 10 تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں ، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا۔ (اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی)۔ نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرف ِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے ، لہذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ ( ترمذی، ابن ماجہ)
حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ یہ قربانی کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ ہمارے لئے اس میں کیا اجروثواب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔ (ابن ماجہ، ترمذی)
ان مبارک ایام میں خون بہانے کی فضیلت:
حضور اکرم ﷺ بذات خود نماز عید الاضحی سے فراغت کے بعد قربانی فرماتے تھے، نبی اکرم ﷺ کی قربانی کرنے کا ذکر حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں ہے۔ آپ نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے گھر والوں اور امت مسلمہ کے ان احباب کی طرف سے بھی قربانی کرتے تھے جو قربانی نہیں کرسکتے تھے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم،جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ ،سنن نسائی) حضور اکرم ? نے حجة الوداع کے موقعہ پر انہیں قربانی کے ایام میںسواونٹوں کی قربانی دی، ان میں سے چھتیس اونٹ نبی اکرم ﷺنے بذات ِخود نحر (ذبح) کئے اور باقی تہتر اونٹ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے نحر (ذبح) کئے۔
قربانی کس پر واجب ہے :
مسلمان مرد و عورت، عاقل، بالغ، مقیم جس کے پاس قربانی کے دنوں میں حوائج ضروریہ، رہائش کا مکان، کھانے پینے کا سامان، استعمال کے کپڑے، سواری، دیگر ضروریات کے علاوہ ساڑھے سات تولے (87.479 گرام) سونا یا ساڑھے باون تولے (612.35 گرام) چاندی یا اس کے برابر نقدرقم یا ان کے علاوہ کوئی دوسرا سامان ہو تو اس پر قربانی واجب ہوتی ہے۔لہٰذا مذکورہ صورت میں اگر باپ اور بیٹا دونوں کی ملکیتیں الگ الگ ہوں اور دونوں صاحب نصاب ہوں تو ان میں سے ہر ایک پر قربانی واجب ہے۔ اور اگر باپ، بیٹا اکٹھے رہتے ہوں اور بیٹے کا کوئی مستقل کاروبار بھی نہیں اور نہ اس کے پاس بقدر نصاب رقم ہوتوبیٹے پر قربانی واجب نہیں۔عورت اگر خود صاحب نصاب ہو تو اس پر قربانی واجب ہے، چاہے وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔
چند وضاحتیں:
(الف) ایک شخص کے پاس دو مکان ہیں، ایک مکان اس کی رہائش کا ہے اور د±وسرا خالی ہے تو اس پر قربانی واجب ہے، جبکہ اس خالی مکان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو۔
(ب) ایک مکان میں وہ خود رہتا ہو اوردوسرامکان کرایہ پر ا±ٹھایا ہے تو اس پر بھی قربانی واجب ہے، البتہ اگر اس کا ذریعہ معاش یہی مکان کا کرایہ ہے تو یہ بھی ضروریاتِ زندگی میں شمار ہوگا اور اس پر قربانی کرنا واجب نہیں ہوگی۔
(ت) کسی کے پاس دو گاڑیاں ہیں، ایک عام استعمال کی ہے اور د±وسری زائد تو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔
(ث) کسی کے پاس دو پلاٹ ہیں، ایک اس کے سکونتی مکان کے لئے ہے اور د±وسرا زائد، تو اگر اس کے د±وسرے پلاٹ کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔
(ج)عورت کا مہرِ معجل اگر اتنی مالیت کا ہو تو اس پر بھی قربانی واجب ہے، یا صرف والدین کی طرف سے دیا گیا زیور اور استعمال سے زائد کپڑے نصاب کی مالیت کو پہنچتے ہوں تو اس پر بھی قربانی کرنا واجب ہے۔
(ح)ایک شخص ملازم ہے، اس کی ماہانہ تنخواہ سے اس کے اہل و عیال کی گزربسر ہوسکتی ہے، پس انداز نہیں ہوسکتی، اس پر قربانی واجب نہیں جبکہ اس کے پاس کوئی اور مالیت نہ ہو۔
(خ)ایک شخص کے پاس زرعی اراضی ہے، جس کی پیداوار سے اس کی گزر اوقات ہوتی ہے، وہ زمین اس کی ضروریات میں سے سمجھی جائے گی۔
(د) ایک شخص کے پاس ہل جوتنے کے لئے بیل اور دودھیاری گائے بھینس کے علاوہ اور مویشی اتنے ہیں کہ ان کی مالیت نصاب کو پہنچتی ہے تو اس پر قربانی کرنا واجب ہے۔
(ذ) ایک شخص صاحبِ نصاب نہیں، نہ قربانی اس پر واجب ہے، لیکن اس نے شوق سے قربانی کا جانور خرید لیا تو قربانی واجب ہے۔
مسافر پر قربانی واجب نہیں۔صحیح قول کے مطابق بچے اور مجنون پر قربانی واجب نہیں، خواہ وہ مال دار ہوں۔
(ر)کسی شخص نے قربانی کی منّت مانی ہو تو اس پر قربانی کرنا واجب ہے۔
(ز)کسی شخص نے مرنے سے پہلے قربانی کی وصیت کی ہو اور اتنا مال چھوڑا ہو کہ اس کے تہائی مال سے قربانی کی جاسکے تو اس کی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔
قربانی کے جانور کو حرام کمائی سے نہ خریدا جائے:
اس معاملے میں اکثر لوگ تساہل برتتے ہیں کہ کبھی جانور کو سود کی کمائی سے خریدتے ہیں اور کبھی رشوت کی کمائی سے ،یہ دونوں کمائیاں مکمل حرام اور گناہ ہیں ان سے خریدے ہو ئے جانور کی قربانی کرنا بالکل ناجائز اور گناہ ہے اس لئے کہ اسلامی شریعت میں سود ظلم جبکہ رشوت کی رقم لوٹ کی کمائی کے مترادف تصور کی جاتی ہے۔مسلمانوں کے لئے واجب ہے کہ وہ اس کمائی سے بچیں اور دوسرے بھائیوں کو بھی اسے بچنے کی تلقین کریں ۔
جانور کیسا ہونا چاہیے:
قربانی کے جانور کا عمدہ، موٹا، تازہ اور عیبوں سے سالم ہونا ضروری ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ قربانی کے جانور کے آنکھ، کان خوب اچھی طرح دیکھ لیں اور ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کے کان کا پچھلا حصہ یا اگلاحصہ کٹا ہوا ہو، اور نہ ایسے جانور کی قربانی کریں جس کا کان چیرا ہوا ہو، یا جس کے کان میں سوراخ ہو۔(جامع ترمذی)
حضرت براءبن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قربانی میں کیسے جانوروں سے پرہیز کیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ چار طرح کے جانوروں سے پرہیز کرو:
1۔وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔
2۔وہ کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو۔
3۔ایسا بیمار جانور جس کا مرض ظاہر ہو۔
4۔ایسا دبلا پتلا جانور کہ جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔
5 ۔ اگر کسی جانور کو جلد ی بیماری ہے او را سکا اثر گوشت تک نہ پہنچا ہو تو اس کی قربانی درست ہے اور اگر بیماری اور زخم کا اثر گوشت تک پہنچا ہو تو اس کی قربانی صحیح نہیں۔
6۔خارش والے جانور کی قربانی درست ہے ، لیکن اگر خارش کی وجہ سے بالکل کمزور ہو گیا ہو یا خارش کھال سے گزر کر گوشت تک پہنچ گئی ہو تو اس کی قربانی درست نہیں ہے۔
7۔ اگر جانور کے دانت گھس کر مسوڑھوں سے جاملے، لیکن گھاس کھانے پر قادر ہے تو اس کی قربانی صحیح ہے او راگر گھاس کھانے پر قادر نہیں تو اس کی قربانی جائز نہیں۔
خصی جانوروں کی قربانی:
خصی بکرے،مینڈھے اور بیل کی قربانی جائز ہے ، اس میں کسی قسم کی کوئی کراہت نہیں ہے ،حدیث شریف میں موجود ہے کہ نبی پاک ﷺ نے خصی جانور کی قربانی فرمائی ہے اس لئے یہ عیب قربانی کے جواز کے لئے مانع نہیں ہے ۔
قربانی کے جانور کی عمر:
بکرا، بکری، بھیڑ کی عمرایک سال کی ہو، بھیڑ اوردنبہ اگر چھ ماہ کا ہے لیکن دیکھنے میں ایک سال کا معلوم ہوتا ہے، گائے اور بھینس کی عمردو سال کی ہواور اونٹ کی عمرپانچ سال کا ہوتو ان سب جانوروں پر قربانی کرنا جائز ہے۔
قربانی کے جانور میں شرکاءکی تعداد:
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ قربانی میں بکرا (بکری، مینڈھا، دنبہ) ایک شخص کی طرف سے ہے۔ (بحوالہ اعلاءالسنن۔ باب ان البدنہ عن سبعة)حضر ت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے اور آپ ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات (آدمی) شریک ہوجائیں۔ (مسلم۔ باب جواز الاشتراک)حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ حدیبیہ کے سال قربانی کی، اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور گائے سات آدمیوں کی طرف سے۔ (مسلم۔ باب جواز الاشتراک فی الہدی)
قربانی کے جانور کا عیوب سے پاک ہوناضروری ہے:
عیب دار جانور (جس کے ایک یا دو سینگ جڑ سے اکھڑ گئے ہوں، اندھا جانور، ایسا کانا جانور جس کا کاناپن واضح ہو، اس قدر لنگڑا جو چل کر قربان گاہ تک نہ پہنچ سکتا ہو، ایسا بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو ) کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔قربانی کے جانوروں کوگھر لا کر پالنا مستحسن ہے اس کی گنجائش نا ہو تو ضروری نہیں ہے البتہ جانور کو قربانی سے پہلے صاف و پاک کرنا مستحب ہے۔
خود قربانی کرنا افضل ہے:
نبی اکرم ﷺ اپنی قربانی خود کیا کرتے تھے، اس وجہ سے قربانی کرنے والے کا خود ذبح کرنا یا کم از کم قربانی میں ساتھ لگنا بہتر ہے، جیساکہ حدیث میں گزرا کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو قربانی پر حاضررہنے کو فرمایا۔
قربانی کا گوشت:
قربانی کے گوشت کو آپ خود بھی کھاسکتے ہیں، رشتہ داروں کو بھی کھلاسکتے ہیں اور غرباءومساکین کو بھی دے سکتے ہیں۔ علماءکرام نے بعض آثار کی وجہ سے تحریر کیا ہے کہ اگر گوشت کے تین حصے اس طور پر کئے جائیںکہ ایک حصہ اپنے لئے، دوسرا حصہ رشتہ داروں کے لئے اور تیسرا حصہ غرباءومساکین کے لئے تو یہ بہتر ہے۔
میت کی جانب سے قربانی:
جمہور علماءامت نے تحریر کیا ہے کہ میت کی جانب سے بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ اپنی طرف سے قربانی کرنے کے علاوہ امت کے افراد کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے، اس قربانی کو آپ ﷺ زندہ افراد کے لئے خاص نہیں کیا کرتے تھے۔ اسی طرح حدیث میں ہے کہ حضرت علیؓنے دو قربانیاں کی اور فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی اور اسی لئے میں آپﷺ کی طرف سے بھی قربانی کرتا ہوں۔ (ابوداو¿د، ترمذی)
قربانی کرنے والے کے لئے مستحب عمل:
حضرت ام المو¿منین ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے، اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ (صحیح مسلم) اس حدیث اور دیگر احادیث کی روشنی میں‘ قربانی کرنے والوں کے لئے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک جسم کے کسی حصے کے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔
قربانی کی کھال:
قربانی کی کھال کو قربانی کرنے والا اپنے استعمال میں لاسکتا ہے اور کسی دوسرے کو بھی دی جا سکتی ہے ، لیکن فروخت کرکے پیسے نہ تو خود کھاسکتا ہے نہ کسی مال دار کو دے سکتا ہے، بلکہ بیچنے کے بعد قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔کسی ملازم کو تنخواہ اور کام کے عوض میں دینا درست نہیں، جیسے امام، مو¿ذن، خادم مسجد کہ ان کو بحق اجرت قربانی کی کھال دینا درست نہیں، البتہ اگر یہ لوگ نادار ہیں تو ناداری کی وجہ سے ان کو دینا درست ہے۔