سرینگر//
جموں کشمیر میں سرگرم سب سے بڑی جنگجو تنظیم حزب المجاہدین نے ایک سخت موقف اختیار کرتے ہوئے حیران کن انداز میں علیٰحدگی پسندوں کی مشترکہ قیادت کو قتل کرنے کی دھمکی دی ہے۔حزب کو علیٰحدگی پسند قیادت کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو خالصتاََ سیاسی مسئلہ قرار دئے جانے پر اعتراز ہے اور اس نے قیادت سے بعض چُبھتے سوال پوچھتے ہوئے انہیں مسلح گروہوں کے معاملے میں دخل دینے سے باز رہنے کے لئے کہا ہے۔
سماجی رابطے کی ویسب سائٹوں پر وائرل ہونے والی ایک آڈیو کِلپ میں حزب کے معروف کمانڈر بُرہان وانی،جنکے مارے جانے پر وادی میں قریب پانچ ماہ کی لمبی ہڑتال ہوئی تھی،کے جانشین ذاکر موسیٰ نے ماہ بھر قبل جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام میں کشمیریوں کو قومیت کی بجائے اسلام کے لئے جدوجہد کرنے کی صلاح دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لئے نہیں بلکہ اسلام کے لئے لڑ رہے ہیں لہٰذا لوگوں کو بھی کسی جنگجو کا چہرہ دیکھ کر اسکی مدد کو آنے کی بجائے اسلام کی مدد کے جذبے سے مدد کرنی چاہیئے۔تاہم سید علی شاہ گیلانی،مولوی عمر فاروق اور یٰسین ملک پر مشتمل علیٰحدگی پسندوں کی مشترکہ قیادت نے ذاکر موسیٰ کا نام لئے بغیر ایک بیان میں کہا تھا کہ بعض لوگ نا بالیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔مشترکہ قیادت نے یہ بھی کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر خالصتاََ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسکا مذہب کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ذاکر موسیٰ نے غالباََ اسی بیان سے ناراض ہوکر تازہ بیان جاری کیا ہے جس میں انہیں کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے”ہم ان سیاسی منافقوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے تو پھر آپ لوگ آزادی کا مطلب کیا-لاالہ الااللہ اور پاکستان سے رشتہ کیا-لا الہ الااللہ کے جیسے نعرے کیوں لگاتے ہو،تم لوگ کیوں مساجد میں جاکر لوگوں سے خطاب کرتے پھرتے ہو“۔
علیٰحدگی پسند قیادت،جنہیں جنگجووں کے ترجمان سمجھا جاتا رہا ہے،کو پہلی بار راست دھمکی دیتے ہوئے حزب کمانڈر نے کہا ہے”ہم ان حریت والوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے معاملے میں دخل نا دیں اور خود کو اپنی گندی سیاست تک محدود رکھیں نہیں تو ہم انکے سر کاٹ کر انہیں سرینگر کے لالچوک میں لٹکا دینگے“۔
یہ پہلی بار ہے کہ جنگجو تنظیموں نے حریت قیادت کو اس قدر کھلے عام شدید دھمکی دی ہے حالانکہ دونوں میں اختلافات پہلی بار سامنے نہیں آئے ہیں۔حریت کانفرنس کی جانب سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی اس بات کی تصدیق ہو پائی ہے کہ آیا یہ واقعی ذاکر موسیٰ کی آواز ہے یا کسی نے انکی نقل کرکے کسی خاص مقصد کے ساتھ اس طرح کی دھمکی دی ہے۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سکیورٹی ایجنسیاں یہ دعویٰ کرتی آرہی ہیں کہ وادی میں ابھی سرگرم جنگجووں پر سرحد پار بیٹھے جنگجو لیڈروں کا پوری طرح قابو نہیں ہے اور وہ بہت حد تک خود مختار ہوکر کام کرتے ہیں۔