سرینگر// چمپینز ٹرافی کے فائینل میں پاکستان کی بھارت پر بھاری اور شاندار فتح کو لیکر وادی¿ کشمیر کے اطراف و اکناف ،با الخصوص سرینگر میں،اپنی نوعیت کا جشن منایا گیا اور لوگوں کو جنون کی حد تک خوشیاں مناتے دیکھا گیا۔اس دوران وادی بھر میں دیر رات تک پٹاخے سر کئے جاتے رہے جبکہ کئی جگہوں پر لوگوں نے نعرہ بازی کے علاوہ جوش میں آکر سرکاری فورسز پر سنگباری بھی کی۔
اگرچہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض ایک کھیل ہے اور اسے کوئی بھی اچھی ٹیم جیت سکتی ہے تاہم جس انداز سے نئی دلی کے میڈیا نے کئی دن پہلے سے اس خاص کھیل مقابلے سے متعلق رپورٹنگ کرنا شروع کی تھی اس سے یہ ”وقار کا مسئلہ“بن گیا تھا۔
حالانکہ اس اہم اور نازک ترین کھیل کے حوالے سے کئی دن پہلے سے ہی سرینگر میں ہی نہیں بلکہ ہندوپاک میںزبردست تذبذب کا ماحول تھا تاہم اتوار کو کھیل شروع ہونے سے قبل بھارت نے ٹاس جیتا تو وادی میں کچھ دیر کے لئے مایوسی چھا گئی تاہم پاکستانی بلے بازوں نے غیر متوقع طور شروع سے ہی دھواں دار باری شروع کی تو مرجھائے ہوئے چہرے کھل اُٹھے۔پاکستان کی جانب سے پہلی باونڈری اسکور کرنے کے ساتھ ہی کشمیر میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی جو کھیل کی فیصلہ کُن گیند پھینکے جانے تک نہ صرف برقرار رہی بلکہ ہر آن بڑھتی ہی گئی۔چناچہ کھیل کا رُخ پہلے ہی کچھ اووروں میں یوں دکھائی دینے لگا کہ سرینگر میں پٹاخے چھوڑے جانے لگے اور پھر یہ سلسلہ دیر رات تک جاری رہا۔
ایک پُراعتماد اور شاندار باری کھیلتے ہوئے جب پاکستانی بلے بازوں نے 337رن بنائے تو ،ذرائع کے مطابق،سوپور کی ایک مسجد میں پیش امام نے انتہائی جذباتی انداز میں بلند آواز کے ساتھ پکارا”خدایا اَز یزتھ“یعنی اے اللہ آج عزت رکھ لیجیوتو اتنے ہی جذباتی انداز میں ایک بڑے مجمعہ نے بلند آواز کے ساتھ آمین کہا۔
ایک پُراعتماد اور شاندار باری کھیلتے ہوئے جب پاکستانی بلے بازوں نے 337رن بنائے تو ،ذرائع کے مطابق،سوپور کی ایک مسجد میں پیش امام نے انتہائی جذباتی انداز میں بلند آواز کے ساتھ پکارا”خدایا اَز یزتھ“یعنی اے اللہ آج عزت رکھ لیجیوتو اتنے ہی جذباتی انداز میں ایک بڑے مجمعہ نے بلند آواز کے ساتھ آمین کہا۔ان ذرائع کے مطابق جوں جوں بھارتی بلے باز پاکستانیوں کی قہر انگیز اور مفلوج کردینے والی گیند بازی کے سامنے ڈھیر ہوتے گئے اور پلڑا پاکستان کی جانب جھکتا نظر آنے لگا کئی مساجد کے لاوڈ اسپیکر نعرہ بازی سے گونجنے لگے اور اسکے ساتھ ساتھ کئی مقامات پر بھارت مخالف اور ”آزاد و پاکستان“کے حق میں بھی نعرے لگائے جانے لگے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی ایک مقامات پر پاکستانی ترانہ بھی بجایا گیا۔حالانکہ پٹاخوں کا سر کیا جانا کھیل کی شروعات کے فوری بعد شروع ہوا تھا تاہم جب پاکستان بھارت کو ہرانے کے قریب آگیا،سرینگر کے مختلف بازاروں میں نوجوانوں نے ٹولیاں بناکر اجتماعی طور پٹاخے پھوڑے اور چیختے چلاتے ہوئے خوشی کا اظہار کرنا شروع کیا۔چناچہ بھارت کی وِکٹ گر جاتی تو ایک ساتھ مختلف سمتوں سے سینکڑوں پٹاخوں کی آواز آتی جو ابھی رُکی نہیں ہوتی تھی کہ بھارت کو ایک اور نقصان پہنچتا اور نوجوان پھر سے اُچھلنے لگ جاتے۔پاکستان نے بھارت کی اخری وِکٹ گرادی تو گویا لوگ پوری طرح دیوانہ ہوگئے اور ہر سو نعرہ بازی اور شورشرابا سُنائی دینے لگا۔چناچہ پائین سرینگر کے کئی علاقوں میں نوجوانوں نے پاکستانی پرچم کے ساتھ ریلیاں نکالیں جن کے دوران حزب المجاہدین،لشکر طیبہ اور مختلف سابق و موجودہ جنگجو کمانڈروں کے نام لے لیکر نعرے لگائے گئے۔
کشمیر یونیورسٹی کے مختلف ہوسٹلوں میں طلباءو طالبات نے زبردست خوشی کا مظاہرہ کیا اور پھر ہوسٹلوں سے باہر آکر ان طلباءنے ہیومنٹیز بلاک کے سامنے اجتماعی طور جشن منایا۔یہاں کی طالبات کی جانب سے کشمیر کے روایتی انداز میں ”ونون“گانے اور پھر پاکستان کے حق میں نعرہ بازی کرنے کی ایک کِلپ انٹرنیٹ پر آکر پلک جھپکتے وائرل ہوگئی جبکہ دیگر کئی علاقوں میں ریکارڈ کی گئی ایسی ہی کلپس بھی وائرل ہوگئیں۔
جونہی ٹیلی ویژں پر پاکستانی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کو ٹرافی حاصل کرنے کے لئے سٹیج کی جانب بڑھتے دکھایا گیا،لوگوں نے یوں خوشی سے اُچھل اُچھل کر چِلانا شروع کیا کہ جیسے خود اسٹیڈیم میں موجود ہوں۔کشمیر یونیورسٹی کے مختلف ہوسٹلوں میں طلباءو طالبات نے زبردست خوشی کا مظاہرہ کیا اور پھر ہوسٹلوں سے باہر آکر ان طلباءنے ہیومنٹیز بلاک کے سامنے اجتماعی طور جشن منایا۔یہاں کی طالبات کی جانب سے کشمیر کے روایتی انداز میں ”ونون“گانے اور پھر پاکستان کے حق میں نعرہ بازی کرنے کی ایک کِلپ انٹرنیٹ پر آکر پلک جھپکتے وائرل ہوگئی جبکہ دیگر کئی علاقوں میں ریکارڈ کی گئی ایسی ہی کلپس بھی وائرل ہوگئیں۔
جشن میں ڈوبے لوگوں کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض ایک کھیل ہے اور اسے کوئی بھی اچھی ٹیم جیت سکتی ہے تاہم جس انداز سے نئی دلی کے میڈیا نے کئی دن پہلے سے اس خاص کھیل مقابلے سے متعلق رپورٹنگ کرنا شروع کی تھی اس سے یہ ”وقار کا مسئلہ“بن گیا تھا۔پیشے سے ڈاکٹر ایک نوجوان نے بتایا”اب کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ پاکستان اسکے بعد کب جیتتتا ہے،جیتتتا بھی ہے یا نہیں لیکن آج کا میچ انتہائی اسٹریٹجک تھا اور اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے یہ جیت لیا“۔ایک اور نوجوان نے بتایا کہ چونکہ پاکستانی ٹیم ایک عرصہ سے ایک کے بعد ایک خراب کارکردگی دکھاتے ہوئے مایوسی پھیلاچکی تھی لیکن آج اُنہوں ایک ایسے موقعہ پر خوشی کا موقعہ دیا ہے کہ جب کشمیر میں کئی جنگجوو¿ں اور عام شہریوں کے مارے جانے کی وجہ سے ماحول سوگوار تھا۔اُنہوں نے کہا”یہ اتنی بڑی خوشی ہے کہ کچھ دیر کے لئے ہم سارے غم بھول گئے ہیں“۔بعض لوگ پاکستانی ٹیم کی جیت کو ماہِ رمضان میں قدرت کا تحفہ بتارہے تھے اور اسکے لئے ایکدوسرے کو قدرت کا شکر بجالانے کی ترغیب دے رہے تھے۔پائین شہر میں ایک بزرگ نے بتایا کہ اگرچہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لئے کشمیریوں کی محبت کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی اُنکی کسی جیت پر پہلی بار کشمیر میں جشن منایا گیا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس سے قبل اتنا جنون دیکھا بھی نہیں گیا ہے اور نہ ہی اس پیمانے پر جشن منایا جاتا رہا ہے۔
وادی کے دیگر علاقوںمیں بھی اسے طرح جشن منائے جانے کی خبریں موصول ہوئی ہیں تاہم لوگوں کو یہ ڈر بھی تھا کہ کہیں اُنہیں جشن منانے کی پاداش میں عتاب کا شکار نہ بنایا جائے۔یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے پاکستان کے سری لنکا کو ہرائے جانے پر شوپیاں کے بعض دیہات میں نوجوانوں نے پٹاخے پھوڑے تھے جسکے بعد مبینہ طور فوج کے ایک مقامی کیمپ سے وابستہ جوان ان بستیوں میں گھس آئے تھے اور اُنہوں نے لوگوں کی مارپیٹ کرنے کے علاوہ کروڑوں روپے مالیت کی جائیدادیں تباہ کر دی تھیں۔