پی ڈی پی کی کانگریس کے درپر دستک،اخباری بیانات کیلئے کوشش!

سرینگر// سرکردہ کانگریس لیڈر اور سابق وزیرِ اعلیٰ غلام نبی آزاد کی جانب سے ابھی یا کبھی بھی کانگریس اور پی ڈٰ پی کے مابین کوئی رشتہ ممکن نہ ہونے کا اعلان کئے جانے کے باوجود دونوں پارٹیوں کے مابین حکومت سازی کے حوالے سے لے دے جاری بتائی جارہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے مابین اعلیٰ سطح پر بات چیت جاری ہے اور عین ممکن ہے کہ دونوں ہی پارٹیاں جلد ہی اس بات کو پھر ایک بار ثابت کرتے دکھائی دیں کہ سیاست میں دوستی یا دشمنی دائمی نہیں ہوتی ہے۔

کانگریس میں ذرائع نے بتایا کہ غمام نبی آزاد نے یقیناََ پی ڈی پی کے ساتھ ابھی یا مستقبل میں کوئی رشتہ نہ بنانے کی بات تو کی ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ دونوں پارٹیوں کے ملنے کی کوئی سبیل ہی باقی نہیں بچتی ہے۔میڈیا کے ساتھ بات کرنے کا اختیار نہ رکھنے والے ان ذرائع نے انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر بتایا کہ پردے کے پیچھے دونوں پارٹیوں کے بیچ بات چیت جاری ہے۔کانگریس کے ایک لیڈر نے کہا”جہاں تک مجھے معلوم ہے پی ڈٰ پی نے پارٹی(کانگریس) کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ رابطہ کیا ہوا ہے اور پی ڈٰ پی چاہتی ہے کہ دونوں پارٹیاں ایک ہر سرکار حکومت سازی کی کوشش کرے“۔انہوں نے کہا کہ کانگریس میں ایک حلقہ آئیندہ پارلیمانی انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے پی ڈی پی کے قریب جانے کو اس پارٹی کے ”گناہ“اپنے سر لینے کے برابر سمجھتی ہے تاہم ایک طبقے کے مطابق موقعہ کا فائدہ اٹھاکر حکومت بنانا گھاٹے کا سودا بھی نہیں ہے۔

”میرے یہاں پی ڈٰ پی کے ایک لیڈر کا فون آیا تھا اور وہ چاہ رہے تھے کہ میں اخبارات میں ایک بیان جاری کرکے کانگریس اور پی ڈی پی کو حکومت بنانے کی تجویز دوں تاکہ اس سے ایک ماحول بنے اور یہ بات عوام میں موضوعِ بحث بن سکے تاکہ کانگریس خود کو کسی حد تک مجبور پائے“۔

مفتی سعید کی بنائی ہوئی پارٹی پی ڈٰ پی نے اپنے بانی کی قیادت میں 2014کا انتخاب بی جے پی کے خلاف لڑا تھا تاہم بعد ازاں مفتی سعید نے اسی پارٹی کے ساتھ اشتراک کرکے سب کو حیران کیا اور وزیر اعلیٰ بن گئے۔انہوں نے اس ”غیر مقدس رشتے“کی کئی تاویلات کیں اور اسے ”قطبین کا ملاپ“بتاکر اسے جواز بخشنے کی کوشش کی یہاں تک کہ سال بھر بعد وہ مختلف عارضوں میں مبتلا ہوکر نئی دلی کے آل انڈیا میڈیکل انسٹیچیوٹ(ایمز)میں کئی دنوں تک زیرِ علاج رہنے کے بعد جنوری کے اوائل میں دم توڑ بیٹھے۔انکی بیٹی اور پارٹی صدر محبوبہ مفتی کو کئی حلقوں نے بی جے پی کے ساتھ رشتہ باقی رکھنے سے خبردار کیا اور انہوں نے بھی اپنے والد کی موت کے ماتم میں ڈوب کر مہینوں تک حکومت سنبھالنے کی پہل نہیں کی لیکن بعدازاں انہوں نے اپنے والد کی ہی طرح بھاجپا کے سہارے وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ کر سب کو حیران کردیا۔اس دوران انہیں کئی چلینجز کا سامنا کرنا پڑا اور بھاجپا نے دست بالا ہوکر کام کیا لیکن محبوبہ مفتی ایک کمزور وزیر اعلیٰ کے بطور سرکار ”چلاتی“رہیں یہاں تک کہ 19جون کو وہ سرینگر کے سیول سکریٹریٹ میں معمول کے مطابق کام کررہی تھیں کہ نئی دلی میں بھاجپا لیڈر رام مادھو نے جموں کشمیر سرکار سے حمایت واپس لینے کا حیران کن اعلان کرکے گویا محبوبہ مفتی کے پیروں تلے قالین کھینچ کر انہیں منھ کے بل گرادیا۔یہ ایسا ہی تھا کہ جیسے 2008میں پی ڈی پی نے اچانک ہی کانگریس کی سرکار سے حمایت واپس لیکر غلام نبی آزاد کو کرسی سے چلتا کردیا تھا۔

ریاست میں ابھی گورنر راج نافذ ہے تاہم اسمبلی کو ،نیشنل کانفرنس و دیگراں کے مطالبے کے باوجود بھی،تحلیل کئے جانے کی بجائے ملتوی رکھا گیا ہے۔اس دوران کوئی پی ڈی پی کے ٹوٹ کر بکھر جانے اور بھاجپا کے اپنے بل پر نئی سرکار بنانے کی قیاس آرائیاں کرتا ہے تو کوئی کچھ اور کہتا ہے تاہم صورتحال واضح نہیں ہو پارہی ہے اگرچہ بھاجپا کے کچھ لیڈروں نے بعض قیاس آرائیوں کو تقویت پہنچانے والے ”معنیٰ خیز“بیانات دئے ہیں۔

سیاسی بازار میں تازہ افواہ یہ ہے کہ پی ڈی پی نے کانگریس کے دروازے پر باضابطہ دستک دی ہے اور وہ اسی کے سہارے اقتدار میں لوٹنے کی کوششوں میں ہے۔حالانکہ غلام نبی آزاد نے گذشتہ روز نئی دلی میں نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ نہ ابھی اور نہ آئیندہ ہی دونوں پارٹیوں کے بیچ کوئی رشتہ قائم ہو سکتا ہے۔البتہ کانگریس ہائی کمانڈ نے جموں کشمیر کے عہدیداروں نے نئی دلی بلایا ہوا ہے جہاں کور گروپ کی ایک میٹنگ جاری ہے جس میں جموں کشمیر میں حکومت سازی کے امکان پر بھی بات ہوسکتی ہے۔

87ممبروں والی جموں کشمیر اسمبلی میں پی ڈی پی 28ممبران کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کے بطور موجود ہے جسکے بعد بی جے پی کا نمبر ہے جسکے پاس 25سیٹیں ہیں۔نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے پاس با الترتیب15اور12نشستیں ہیں۔کانگریس اور پی ڈٰ پی مل جائے تو چند آزاد ممبران کی حمایت سے انکے لئے حکومت بنانا نا ممکن نہیں ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آزاد کے واضح انکار کے باوجود بھی سبھی امکانات معدوم نہیں ہو چکے ہیں۔کانگریس اور پی ڈی پی کے پُرانے رشتوں کی بحالی کی درپردہ کوششوں کے سچ ہونے کو تقیت پہنچاتے ہوئے ایک سرکردہ سیاستدان نے بتایا کہ پی ڈٰ پی کے ایک لیڈر نے انہیں اخبارات کے ذرئعہ اس طرح کی اپیل کرنے کیلئے کہا تھا تاکہ ایک ”ماحول“تیار ہوجائے۔انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر مذکورہ سیاستدان نے بتایا”میرے یہاں پی ڈٰ پی کے ایک لیڈر کا فون آیا تھا اور وہ چاہ رہے تھے کہ میں اخبارات میں ایک بیان جاری کرکے کانگریس اور پی ڈی پی کو حکومت بنانے کی تجویز دوں تاکہ اس سے ایک ماحول بنے اور یہ بات عوام میں موضوعِ بحث بن سکے تاکہ کانگریس خود کو کسی حد تک مجبور پائے“۔انہوں نے تاہم کہا کہ انہوں نے پی ڈی پی کی درخواست قبول نہیں کی ہے۔

87ممبروں والی جموں کشمیر اسمبلی میں پی ڈی پی 28ممبران کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کے بطور موجود ہے جسکے بعد بی جے پی کا نمبر ہے جسکے پاس 25سیٹیں ہیں۔نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے پاس با الترتیب15اور12نشستیں ہیں۔کانگریس اور پی ڈٰ پی مل جائے تو چند آزاد ممبران کی حمایت سے انکے لئے حکومت بنانا نا ممکن نہیں ہے۔گو2008کا تجربہ کانگریس کو آسانی کے ساتھ پی ڈی پی کے قریب جانے پر آمادہ نہیں ہونے دیگا لیکن جموں کشمیر میں سرکار بن جائے تو اسکے پاس قریب تین سال کا وقت ہوگا جو کسی بھی سیاسی پارٹی کو للچانے کیلئے کافی ہوسکتا ہے اور پھر سیاست کو ”ممکنات کا ہنر “کہا گیا ہے اور یہ بھی ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ سیاست میں موقعے کا فائدہ دیکھا جاتا ہے،دوستی اور دشمنی دائمی نہیں ہوتی۔

یہ بھی پڑھئیں

محبوبہ نے خود کو قید کرلیا،نعیم اختر یوگا کرنے میں مصروف

 

Exit mobile version