سرینگر// جموں کشمیر میں حال ہی بی جے پی اور پی ڈی پی کی سرکار گرنے کے بعد جہاں یہ دونوں پارٹیاں ”جگاڑ“کرکے سرکار بنانے کی علیٰحدہ علیٰحدہ کوششیں کر رہی ہیں وہیں پی ڈی پی کے اندرونی اختلافات سرِ بازار آنے لگے ہیں۔پارٹی کے کئی ایسے”لیڈروں“نے نئے راستے تلاش کرنا شروع کئے ہیں کہ جنکا پارٹی کے ساتھ اقتدار کا واحد رشتہ تھا۔چناچہ شیعہ لیڈر چچا بھتیجا عابد انصاری اور عمران انصاری،جو محبوبہ مفتی کی کابینہ میں کابینہ درجہ کے وزیر تھے،نے باضابطہ پی ڈی پی کے خلاف محاذ کھول دیا ہے یہاں تک کہ سابق وزیر نے پارٹی سے لاتعلقی کا بھی اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ پی ڈی پی ایک پارٹی نہیں بلکہ ایک خاندان کی کمپنی بن کے رہ گئی ہے جس میں ایک عرصہ سے انکا ”دم گھٹتا تھا“۔
قابل ذکر ہے کہ پی ڈی پی کی خانہ خرابی اور اسکے ممبران کے اسے چھوڑ کر چلے جانے کی خبریں اسوقت سامنے آرہی ہیں کہ جب پارٹی نے کانگریس کے در پر دستک دیکر اسکے ساتھ پُرانے رشتوں کو بحال کرکے پھر سے سرکار بنانے کی کوششیں شروع کی ہوئی ہیں۔
مقامی خبررساں ایجنسیوں کے مطابق شمالی کشمیر میں شیعہ اکثریتی علاقہ پٹن کے دورہ کے دوران نامہ نگاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے عمران انصاری نے محبوبہ مفتی کو نہ صرف نالائق بتایا بلکہ انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعلیٰ نے اپنے والد کی بنائی ہوئی پارٹی کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ محبوبہ مفتی نے وہ ”خواب“چکنا چور کردیا ہے کہ جو انکے والد متوفی مفتی سعید نے پارٹی کی بنیاد ڈالتے وقت دیکھا تھا۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی پر پی ڈی پی کی حمایت واپس لینے اور سرکار گرادینے کا الزام لگانا غلط ہوگا بلکہ،انکے بقول،یہ خود محبوبہ مفتی کی ناکامی تھی جو سرکار کے گرنے کی وجہ بن گئی۔اتنا ہی نہیں بلکہ عمران انصاری نے کہا کہ بی جے پی نے سرکار کی دل سے حمایت کی تھی اور یہ اسی پارٹی کی وجہ سے تھا کہ ریاست کو مختلف مدوں میں بھاری رقومات ملیں لیکن محبوبہ مفتی کی نا لائقی کی وجہ سے سرکار ناکام رہی۔انہوں نے الزام لگایا کہ سرکار،جس کا وہ بحیثیتِ وزیر حصہ تھے،اور پی ڈی پی ایک مدت سے کوئی پارٹی یا سرکار نہیں تھی بلکہ یہ محض ایک خاندان کا معاملہ تھا جہاں انکلوں اور آنٹیوں،بھائیوں اور بھتیجوں کی تو چلتی تھی مگر انکی سنی نہیں جاتی تھی کہ جنہوں نے اس پارٹی کیلئے ”خون دیا ہے“۔
عمران انصاری ،جنکے والد متوفی افتخار انصاری پارٹیاںبدل کر حزب اقتدار کے ساتھ جانے کیلئے جانے جاتے تھے،نے کہا کہ انہوں نے پی ڈٰ پی چھوڑ دینے کا فیصلہ لے لیا ہے۔تاہم انہوں نے کہا کہ انہوں نے ابھی پارٹی کی بنیادی رکنیت اور اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ نہیں دیا ہے۔البتہ انہوں نے کہا کہ چونکہ پی ڈی پی کی حیثیت ختم ہوچکی ہے لہٰذا اس جیسی پارٹی کا لیڈر کہلانا بے مقصد ہوگیا ہے۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انہوں نے پارٹی صدر محبوبہ مفتی کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا ہے عمران انصاری نے پارٹی کیلئے ہتک آمیز انداز میں کہا”جب پارٹی کہیں ہے ہی نہیں تو کوئی اسکے صدر کو اپنا فیصلہ کیوں سنائے“۔اس سے ایک دن قبل عمران کے ممبر اسمبلی چچا عابد انصاری نے بھی ایک تقریب سے خطاب کے دوران محبوبہ مفتی کیلئے اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا اور ان پر کئی الزامات لگائے تھے۔عابد انصاری ،انکے بھتیجے کے کابینہ ہونے کے باوجود بھی،روز اول سے ہی سرکار کے ناقد تھے اور ،ذرائع کے مطابق،وہ انہیں وزیربنائے جانے کا مطالبہ پورا نہ کئے جانے کی وجہ سے پارٹی سے نالاں تھے۔
”جب پارٹی کہیں ہے ہی نہیں تو کوئی اسکے صدر کو اپنا فیصلہ کیوں سنائے“۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی ڈی پی کی خانہ خرابی اور اسکے ممبران کے اسے چھوڑ کر چلے جانے کی خبریں اسوقت سامنے آرہی ہیں کہ جب پارٹی نے کانگریس کے در پر دستک دیکر اسکے ساتھ پُرانے رشتوں کو بحال کرکے پھر سے سرکار بنانے کی کوششیں شروع کی ہوئی ہیں۔ حالانکہ کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد،جن کی سرکار سے پی ڈی پی نے 2008میں حمایت واپس لیکر انکی کرسی سے چلتا کردیا تھا،نے گذشتہ روز ابھی اور کبھی بھی کانگریس اور پی ڈی پی کے بیچ کوئی رشتہ قائم ہونے کو نا ممکن بتایا تھا تاہم بتایا جاتا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے بیچ اعلیٰ سطح پر بات چیت جاری ہے۔جموں کشمیر کی 87ممبروں والی اسمبلی میں پی ڈی پی 28ممبروں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی ہے جبکہ کانگریس کے پاس 12نشستیں ہیں اور آزاد ممبروں کے سہارے انکے لئے سرکار بنانا بہت مشکل کام نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئیں