سرینگر// ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے ریاست کے سیول سکریٹریٹ میں مسجد کی تعمیر کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا ہے کہ اکثریتی طبقہ کو کام کے اوقات کے دوران مذہبی فرائض کی انجام دہی کی سہولت نہ دینا مذہبی فرائض کی ادائیگی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ اگر مسلمانوں کے اکثریت میں ہونے کے باوجود اُنکے لئے سکریٹریٹ میں میں مسجد نہیں ہے تو پھر جموں کے سکریٹریٹ میں مندر کی موجودگی کا قانونی جواز کیا ہے۔انجینئر رشید نے سرکار سے ”مزید تاخیر کئے بغیر“جموں اور سرینگر کے سکریٹریٹ میں مساجد تعمیر کرنے کی صلاح دیتے ہوئے کہا کہ بصورت دیگر لوگ شور مچائیں تو اُنہیں غلط نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
عوامی اتحاد پارٹی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں انجینئر رشید نے کہا ہے”جموں کے سکریٹریٹ میں ایک مندر موجود ہے ،حالانکہ اس پر کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ریاست کے اکثریتی طبقہ کیلئے سکریٹریٹ میں مسجد کا انتظام کیوں نہیں ہے۔یہ دراصل خود سرکار ہے کہ جو سکریٹریٹ کے اندر مسجد کی تعمیر نہیں ہونے دیتی ہے اور یوں فرقہ وارانہ ایجنڈا پر کاربند ہونے کی مرتکب ہورہی ہے۔سرکار کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ ایک مسلمان کو دن میں پانچ وقت نماز پڑھنا لازمی ہے اور سکریٹریٹ میں مسجد کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے، نہ صرف یہاں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین بلکہ مختلف وجوہات کیلئے یہاں آنے والے بے شمار عام لوگوں کو بھی ،شدید مشکلات اور ذہنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے“۔
”ریاست کے اکثریتی طبقہ کیلئے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس حقیقت کو مانتے ہوئے ،کہ مسلمانوں کو صبح و شام کو چھوڑ کر کام کے اوقات کے کم از کم دو بار روزانہ نماز ادا کرنا ہوتی ہے،انہیں مسجد سے محروم رکھنا مذہبی حقوق ہی کی نہیں بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے جس پر لوگ شور بھی مچائیں تو غلط نہیں کہلا سکتا ہے“۔
شمالی کشمیر کے حلقہ انتخاب لنگیٹ سے دوسری بار جیتے ہوئے انجینئر رشید ممبر اسمبلی ہونے کے باوجود علیٰحدگی پسندوں کے ہوبہو سیاست کرنے کیلئے سرخیوں میں رہتے آئے ہیں۔انہوں نے اس سے قبل بھی انسانی حقوق کے علاوہ گائے کے ذبیحہ پر پابندی ہٹائے جانے اور جموں کے مسلمانوں کے ساتھ ،مبینہ،امتیازی سلوک جاری ہونے کے جیسے مسائل اٹھائے ہیں۔ سکریٹریٹ میں مسجد کی عدم موجودگی کوریاست کے اکثریتی طبقہ کیلئے ایک بڑا مسئلہ بتاتے ہوئے انہوں نے سرکار سے اپیل کرتے ہوئے کہاہے کہ جموں اور سرینگر کے سیول سکریٹریٹ میں مساجد کی تعمیر میں غیر ضروری تاخیر یا آنا کانی نہیں کی جانی چاہیئے۔انہوں نے کہا”ریاست کے اکثریتی طبقہ کیلئے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس حقیقت کو مانتے ہوئے ،کہ مسلمانوں کو صبح و شام کو چھوڑ کر کام کے اوقات کے کم از کم دو بار روزانہ نماز ادا کرنا ہوتی ہے،انہیں مسجد سے محروم رکھنا مذہبی حقوق ہی کی نہیں بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے جس پر لوگ شور بھی مچائیں تو غلط نہیں کہلا سکتا ہے“۔
مسلمانوں پر روزانہ پانچ نمازیں فرض ہیں جن میں سے ،ظہر اور عصر،دوپہر اور سہ پہر کو تب پڑھنا ہوتی ہیں کہ جب لوگ،بشمولِ سرکاری ملازمین کے،کام کی جگہوں پر مصروف ہوتے ہیں۔جموں کشمیر چونکہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے یہاں کے بیشتر بازاروں میں کہیں چھوٹی اور کہیں بڑی مساجد واقع ہیں جبکہ بیشتر نجی اداروں یہاں تک کہ اسپتالوں نے نماز کیلئے جگہیں مختص کی ہوئی ہیں کہ جہاں یہاں مصروف رہنے والے لوگ وقت آنے پر نماز پڑھتے ہیں۔سرینگرکے سکریٹریٹ میں، موسم ٹھیک ہونے کی صورت میں، ملازمین ،افسروں اور یہاں کام سے آنے والے عام لوگوں کو کھلے آسمان تلے صحن میں نماز پڑھتے دیکھا جاتا ہے تاہم موسم خراب ہونے کی صورت میں لوگ یا تو وقت پر نماز نہیں پڑھ پاتے ہیں یا پھر باہر آکر مساجد کی تلاش کرکے فریضہ انجام دیتے ہیں۔
”یہ ایک حیران کن اور افسوسناک بات ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود جموں کشمیر کے سکریٹریٹ میں مسجد کا نہ ہونا حیران کن اور افسوسناک ہے۔یہ سوال پوچھنا کسی بھی طرح بلاجواز نہیں ہو سکتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو سرکاری ڈیوٹی کرنے کے دوران مذہبی فرائض کی انجام دہی کا بنیادی حق حاصل نہیں ہے تو پھر جموں کے سکریٹریٹ میں مندر کو موجودگی کا قانونی جواز کیا ہے“۔
انجینئر رشید نے مزید کہا”یہ ایک حیران کن اور افسوسناک بات ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود جموں کشمیر کے سکریٹریٹ میں مسجد کا نہ ہونا حیران کن اور افسوسناک ہے۔یہ سوال پوچھنا کسی بھی طرح بلاجواز نہیں ہو سکتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو سرکاری ڈیوٹی کرنے کے دوران مذہبی فرائض کی انجام دہی کا بنیادی حق حاصل نہیں ہے تو پھر جموں کے سکریٹریٹ میں مندر کو موجودگی کا قانونی جواز کیا ہے“۔انہوں نے کہا کہ سرکار کو مزید تاخیر کئے بغیر اس امتیاز کو ختم کردینا چاہیئے تاکہ اکثریتی طبقہ کے جذبات کو مزید مجروح ہونے سے بچایا جاسکے۔
یہ بھی پڑھئیں