جموں// جموں کے کٹھوعہ ضلع میں گذشتہ دنوں پیش آمدہ ایک معصوم بچی کے عصمت دری کے بد قتل کے واقعہ کے خلاف احتجاج کرنے والے ایک مسلمان وکیل کی گرفتاری اور قصورواروں کو سزادئے جانے میں ہورہی دیری کے خلاف آض اسمبلی میں زبردست احتجاج ہوا۔اس واقعہ کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کا زوردار مطالبہ کرتے ہوئے اپوزیشن ممبران نے الزام لگایا کہ پولس معاملے کو گول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
پیر کی صبح جب اسپیکر نے اسمبلی میں وقفہ سوالات کے آغاز کا اعلان کیا تو نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے ممبران اپنی نشستوں سے کھڑے ہوکر احتجاج کرنے لگے۔کانگریس پارٹی سے وابستہ سابق وزیر جی ایم سروری نے ایوان کو اس بات سے آگاہ کیا کہ کٹھوعہ میں 8سالہ کمسن بچی کے وحشیانہ قتل کے خلاف احتجاج کرنے والے انکے رشتہ داروں کی پولس نے شدید مارپیٹ کی ہے جبکہ مقامی گجر لیڈر اور وکیل طالب حسین کو حراست میں لیاگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ طالب حسین کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ آصفہ نامی بچی کے ساتھ ہوئے ظلم کے خلاف موم بتیاں جلاکر احتجاج کررہے تھے۔جی ایم سروری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا”پولیس کارروائی میں کی لوگ زخمی ہوئے ہیں، یہ کوئی طریقہ نہیں ہے“۔سابق وزیر نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا”یہ کچھ نہیں بلکہ دباﺅ بناکرانصاف کے طلب گار لوگوں کی آواز کو خاموش کرانے کا حکومت کا ایک حربہ ہے“۔سروری کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو مظاہرین پر طاقت کا استعمال کرنے والے اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانی چاہئے۔
ایوان اسمبلی میں کئی اپوزیشن ممبران نے یہاں تک الزام لگایا ہے کہ پولس ”اصل مجرموں“کو بچانے کیلئے ایک نابالغ لڑکے کی آڑ لے رہی ہے۔
نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور جنوبی کشمیر میں حلقہ انتخاب پہلگام الطاف احمد کلو نے بھی گوجر لیڈر طالب کو امن و قانون کا مسئلہ پیدا کرنے کے الزام میں گرفتار کرنے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ الطاف کلو اپنی سیٹ سے کھڑے ہوئے اور طالب کی گرفتاری کوبد قسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے اسپیکر کویندر گپتا اور ایوان میں موجود دیگر تمام ممبران کی مداخلت طلب کی۔اس دوران اپوزیشن کے دیگر کئی ممبران نے بھی احتجاج درج کرایاسرکار کی جانب سے امداد و بازآبادکاری کے ریاستی وزیر جاوید مصطفےٰ میر نے احتجاجی ممبران کی طرف سے اٹھائے گئے معاملات کا جائزہ لینے کی یقین دہانی کرکے انہیں خاموش کرانے کی کوشش کی۔انہوں نے اپوزیشن ممبران کو بتایا”ہم اس بارے میں تفصیلی جانکاری حاصل کرکے گرفتاری کے حوالے سے ایوان کو آگاہ کریں گے“۔تاہم حزب اختلاف کے ممبران نے احتجاج جاری رکھا جس کے نتیجے میں ایوان میں زبردست شوروغل بپا ہوا۔احتجاجی ممبران نے کہا”طالب نے کوئی بندوق نہیں اٹھائی ہے اور نہ ہی پتھراﺅ کیا ہے بلکہ وہ مقتولہ معصوم بچی کےلئے انصاف مانگ رہا ہے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ناطے طالب کسی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث نہیں ہے اور اس کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ڈوزئیر تیار کرنے کی خبروں سے صورتحال مزید مخدوش ہونے کا احتمال ہے ۔انہوں نے دھمکی دی کہ وہ طالب کی رہائی تک ایوان کی کارروائی میں رخنہ ڈالیں گے“۔
8سالہ آصفہ گھوڑے چرانے کے دوران اچانک غائب ہوگئی تھیں اور پھر سات دنوں کے بد نزدیکی جنگل سے انکی تارتار لاش برآمد کی گئی تھی۔معلوم ہوا ہے کہ آصفہ کو ایک گاو خانے میں بند رکھا گیا تھا جہاں کئی دنوں تک انکے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی رہی۔ پولس کا دعویٰ ہے کہ یہ جرم ایک پندرہ سالہ نابالغ نے انجام دیا ہے تاہم لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ ایک نابالغ بدمعاش کیلئے یوں ایک بچی کو سات دنوں تک قید کررکھنا ممکن ہو سکتا ہے۔ایوان اسمبلی میں کئی اپوزیشن ممبران نے یہاں تک الزام لگایا ہے کہ پولس ”اصل مجرموں“کو بچانے کیلئے ایک نابالغ لڑکے کی آڑ لے رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں