کیا آصفہ کے اصل مجرم کو بچایا جارہا ہے؟

جموں// جموں کشمیر کے کٹھوعہ ضلع میں ایک معصوم بچی کے اغوا ،عصمت ریزی اور قتل کے دل دہلادینے والے واقعہ کو لیکرسنیچر کو لگاتار تیسرے دن بھی اسمبلی میں ہنگامہ ہوا اور اپوزیشن نے پولس پر”اصل مجرموں“ کو بچانے کیلئے ایک نابالغ لڑکے کی آڑ لیکر معاملے کو دبانے کی کوشش کا الزام لگایا۔اپوزیشن کے زبردست ہنگامہ کے بعد سرکار نے متعلقہ ایس ایچ او کو معطل کرکے اس معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے جانے کی یقین دہانی دہرائی ہے۔

ایوان کی کارروائی شروع ہوتے ہی مختلف اپوزیشن ممبروں نے اپنی نشستوں سے اٹھ کر کٹھوعہ میں پیش آمدہ واقعہ پر احتجاج کرنا شروع کیا اور الزام لگایا کہ پولس ”اصل مجرموں“کو بچانے کے فراق میں ہے۔کانگریس کے عثمان مجید نے کہا’’اسے (کمسن آصفہ) کو ایک گاو خانے میں بند رکھا گیا تھا جہاں اس کی عصمت ریزی کی گئی“۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے قتل اور عصمت ریزی کے اس افسوسناک واقعہ میں ایک 15 سالہ لڑکے کو گرفتار کیا ہے لیکن ایک کم عمر لڑکا یہ جرم اکیلے انجام نہیں دے سکتاہے۔انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا” وہ لڑکی کو کیسے سات دنوں تک غیرقانونی تحویل میں رکھ سکتا تھا؟“۔ عثمان مجید کا کہنا تھا ” پولیس اصل مجرموں کو بچانے کی کوششیں کررہی ہے، وہ معاملے کو دفن کرنا چاہتی ہے“۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے قتل اور عصمت ریزی کے اس افسوسناک واقعہ میں ایک 15 سالہ لڑکے کو گرفتار کیا ہے لیکن ایک کم عمر لڑکا یہ جرم اکیلے انجام نہیں دے سکتاہے۔

ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرا نگر میں گذشتہ ہفتے ایک آٹھ سالہ کمسن بچی کو اغوا کیا گیا اور اس کی لاش بدھ کے روز ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی۔ آصفہ نامی اس لڑکی کی لاش کی انتہائی بری حالت تھی اورقتل سے قبل انکے ساتھ دست درازی کیا جانا ثابت ہوچکا ہے۔اس واقعہ کے خلاف جہاں مذکورہ کے لواحقین نے احتجاج کیا ہے وہیں ریاستی اسمبلی کے جاری بجٹ اجلاس میں لگاتار تین دنوں سے اس پر ہنگامہ آرائی جاری ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ پولس نے مجرم کو دبوچ لیا ہے جنہوں نے اقبالِ جرم بھی کیا ہے تاہم مجرم کو نابالغ بتایا جارہا ہے۔

عثمان مجید کی حمایت میںکئی ممبران کھڑا ہوئے اور حکومت مخالف نعرے بازی کرنے لگے۔کٹھوعہ کے ممبر اسمبلی راجیو جسروٹیہ نے تاہم الزام لگایا کہ اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دئے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا ”ہم اس واقعہ کی مذمت کرتے ہیں لیکن آپ اس واقعہ کو کیونکر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں“۔ بی جے پی ایم ایل اے کے ان ریمارکس سے اپوزیشن کے سبھی اراکین اشتعال میں آگئے اور ”قاتل کو پھانسی دو، لاڈلی بیٹی کو انصاف دو، کرمنل سرکار ہائے ہائے“ کے نعرے بلندکرنے لگے۔

زبردست ہنگامہ آرائی کے بیچ قانون و پارلیمانی امور کے وزیر عبدالرحمان ویری نے حکومت کی طرف سے ایوان کو بتایا’’ہم نے پہلے ہی واقعہ کی مجسٹریل انکوائری کے احکامات صادر کئے ہیں۔ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیے“۔ نیشنل کانفرنس ممبر اسمبلی علی ساگر نے کہا کہ اگر حکومت نے ایس او ایچ کو فوری طور پر معطل کیا ہوتا تو محکمہ (پولیس) کو ایک واضح پیغام جاتا۔ انہوں نے کہا ”ہم کاروائی عمل میں لانے تک ایوان کی کاروائی کو نہیں چلنے دیں گے“۔ اس پر ویری نے کہا کہ ایس ایچ او کو معطل کیا گیا ہے۔ مسٹر ویری نے کہا ”ہم نے معاملے کی انکوائری مکمل ہونے تک ایس ایچ او ہیرا نگر کو معطل کرنے کا حکم جاری کردیا ہے“۔

 

یہ بھی پڑھیں

کٹھوعہ میں کمسن بچی کی عزت ریزی اور قتل

Exit mobile version