سرینگر// ایک ماہ سے بھی کم عرصہ کے دوران پیش آمدہ اپنی نوعیت کے دوسری واقعہ میں فوج نے ڈیوٹی پر موجود جموں کشمیر پولس کے کم از کم دو افسروں پر ہاتھ اُٹھاکر اُنکی پٹائی کردی ہے۔یہ واقعہ شمالی کشمیر کے کپوارہ کا ہے کہ جہاں ایک ایس ایچ اور نے کمال جُرات کا مظاہرہ کرکے اپنے سینے کو ڈھال بناکر اپنے ماتحت کی جان بچا لی جن پر فوجی اہلکاروں نے بندوق تان لی تھی۔
ایس ایچ او طارق احمد کے ساتھ موجود منشی نے مداخلت کی اور فوجی اہلکاروں کو روکنا چاہا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجی اہلکاروں نے مذکورہ شہری کو چھوڑ کر خود منشی اور ایس ایچ او کو پکڑ لیا اور اُنکے ساتھ مارپیٹ کرنا شروع کی۔
خبررساں ایجنسی جی این ایس نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ واقعہ کل دیر رات اُسوقت پیش آیا کہ جب تھانہ پولس کپوارہ کے منشی ،شبیر احمد،نے فوج کی 41آرآر کے اہلکاروں کو ایک عام شہری کے ساتھ بد تمیزی کرتے دیکھے اور مداخلت کرنا چاہی۔بتایا جاتا ہے کہ فوجی اہلکار مذکورہ شہری کو زبردستی گاڑی میں سے اُتارنا چاہتے تھے اور یہ دیکھ کر موقعہ پر ایس ایچ او طارق احمد کے ساتھ موجود منشی نے مداخلت کی اور فوجی اہلکاروں کو روکنا چاہا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجی اہلکاروں نے مذکورہ شہری کو چھوڑ کر خود منشی اور ایس ایچ او کو پکڑ لیا اور اُنکے ساتھ مارپیٹ کرنا شروع کی۔
ذرائع نے پولس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فوجی اہلکاروں نے بندوقیں لوڈ کرلیں اور پولس کے منشی پر نشانہ باندھنے لگے تاہم اس موقعہ پر ایس ایچ او نے کمال جُرات کا مظاہرہ کرکے ماتحت اہلکار کے سامنے کھڑا ہوکر اُنہیں ڈھال فراہم کی اور فوجی اہلکاروں کو پہلے اُنہیں گولی مار دینے کیلئے کہا۔بعدازاں پولس اور فوج کے کئی افسر یہاں پہنچ گئے اور صورتحال کو سنبھالا گیا۔ایس ایس پی کپوارہ شمشیر حسین نے اس حوالے سے کہا ہے”یہ ایک معمولی جھڑپ تھی اور کچھ نہیں“۔حالانکہ جی این ایس کے مطابق پولس کے منشی کی اس حد تک پٹائی کی گئی تھی کہ اُنہیں ضلع اسپتال لیجانا پڑا جہاں اُنکا علاج ہوا ہے۔
ایس ایس پی شمشمیر حسین نے تاہم رائزنگ کشمیر کو بتایا کہ ایک معمولی واقعہ کو مفادِ خصوصی رکھنے والے عناصر کی طرفسے غیر ضروری اور غلط انداز میں اُچھالا جارہا ہے۔اُنہوں نے کہا ہے کہ مختلف سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کے مابین اس طرح کی کہا سُنی ہونا ایک عام سی بات ہے تاہم کسی خبر رساں ایجنسی نے اسے بڑھا چڑھاکر پیش کرکے مسئلہ بنایا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ اُسی وقت حل ہوگیا تھا کہ جب ایس ایچ او طارق موقعہ پر پہنچ گئے تھے حالانکہ خبروں میں بتایا گیا تھا کہ یہ واقعہ خود طارق احمد کی موجودگی میں پیش آیا ہے اور فوجی اہلکاروں نے اُنکے ساتھ بھی دست درازی کی ہے۔
مختلف سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کے مابین اس طرح کی کہا سُنی ہونا ایک عام سی بات ہے تاہم کسی خبر رساں ایجنسی نے اسے بڑھا چڑھاکر پیش کرکے مسئلہ بنایا ہے۔
یہ واقعہ گاندربل ضلع کے گنڈ پولس تھانہ میں پیش آمدہ واقعہ کے محض کچھ ہفتے بعد ہی پیش آیا ہے کہ جہاں فوج کی 24آرآر کے اہلکاروں نے کئی افسروں سمیت کم از کم سات پولس والوں کی اس حد تک پٹائی کردی تھی کہ اُنہیں اسپتال میں بھرتی کرنا پڑا تھا۔ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ اُس واقعہ کو لیکر درج کی گئی ایف آئی آر کی ”تحقیقات“کہاں پہنچی ہے اور آیا کپوارہ کے تازہ واقعہ کی کوئی ایف آئی آر درج بھی ہوئی ہے یا نہیں۔