سرینگر// جموں کشمیر کی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جانب سے وادی کشمیر کی خراب صورتحال کیلئے چین کو موردِ الزام ٹھہرائے جانے کے ردِ عمل میں بزرگ علیٰحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی نے کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو دانشمندی کا مظاہرہ کرتے کسی کو بھی جموں کشمیر کے ”آتش فشاں کو دیا سلائی دکھانے کا موقعہ نہیں دینا چاہیئے“۔اُنہوں نے کہا ہے کہ چین زیادہ دیر تک مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کر بھی نہیں سکتا ہے جبکہ جموں کشمیر کے باضابطہ ایک میدانِ جنگ میں تبدیل ہونے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ” بدلتے عالمی منظر نامے “میں کشمیر ایک فلش پوئینٹ بنتا جارہا ہے اور اس کے” حدود واربعہ میں وُسعت “پیدا ہوتی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہندوپاک کو دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین کو خطے میں مداخلت کرنے سے روکنا چاہیئے۔
”ریاست کے اندر جو آتش فشانی فضا تیار ہورہی ہے، اس کو محض دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے اور کشیدگی کے موجودہ ماحول میں اس ضرورت کو کوئی بھی پورا کرسکتا ہے۔ یہ بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کے لیے ایک کڑے امتحان کا وقت ہے، تدّبر اور ہوشمندی کا مظاہرہ کرکے وہ ایک نئی تاریخ رقم کرسکتے ہیں اور ان کی کسی بھی طرح کی لاپرواہی کو تاریخ کسی بھی صورت میں معاف نہیں کرے گی“۔
اتوار کو یہاں سے جاری کردہ ایک بیان میں سید گیلانی نے گویا محبوبہ مفتی کا نام تو نہیں لیا ہے تاہم اشاروں کنائیوں میں انہوں نے انکے گزشتہ روز کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اس پر تبصرہ کیا ہے۔واضح رہے کہ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے گزشتہ روز نئی دلی میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے ساتھ ملاقات کرنے کے بعد نامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو کے دوران وادی کی خراب صورتحال کیلئے چین پر براہ راست الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ وہ(چین)خطے میں مداخلت کرتے ہوئے یہاں حالات بگاڑ رہا ہے۔اسی بیان کے ردِ عمل میں سید گیلانی نے کہا ہے کہ تنازعہ کشمیرکی وجہ سے خطے کی صورتحال بڑی تیزی سے دھماکہ خیز ر±خ اختیار کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے اوراس تنازعے کے حل میں مزید تاخیر زیادہ اور خطرناک پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے۔
چین کی مسئلہ کشمیر میں کسی بھی مداخلت کو جواز فراہم کرتے ہوئے کہا گیا ہے” چین دنیا کی ایک بڑی اور متبادل طاقت کے طور پر اُبھررہا ہے اور اس نے مغرب کے مقابلے میں اپنی حیثیت کو منوالیا ہے۔اس کی سرحدیں چونکہ بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ مل رہی ہیں، لہٰذا وہ ان کے مابین جاری کشیدگی اور مخاصمت میں زیادہ دیر تک غیر جانبدار رہ سکتا ہے اور نہ وہ اس کو نظرانداز کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے“۔سید گیلانی نے مزید کہا ہے ” تنازعہ کشمیر کا حل طلب ہونا ویسے بھی اس خطے کے لیے بہت مہنگا ثابت ہو رہا ہے اور یہ کروڑوں عوام کے امن وچین کو غارت کرنے کا باعث بنتا رہا ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے مابین تین بڑی جنگیں واقع ہوچُکی ہیں، جن میں ہزاروں انسانی زندگیوں کا اتلاف ہوا ہے اور اربوں کھربوں مالیت کا نقصان بھی ہوا ہے۔ تنازعہ کشمیر کے باعث بھارت اور پاکستان کو اپنی بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوجی اور جنگی اخراجات پر خرچ کرنا پڑرہا ہے، جبکہ ان ممالک کی ایک بڑی آبادی غُربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور وہ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے“۔اُنہوں نے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال ہندوپاک کے حکمرانوں سے متقاضی ہے کہ وہ مسئلے کی نئی نوعیت اور نئی نہج پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غوروفکر کریں اور روایتی بیان بازی اور روایتی پالیسیوں کی بجائے دُور اندیشی اور معاملہ فہمی کا ثبوت فراہم کریں۔
” چین دنیا کی ایک بڑی اور متبادل طاقت کے طور پر اُبھررہا ہے اور اس نے مغرب کے مقابلے میں اپنی حیثیت کو منوالیا ہے۔اس کی سرحدیں چونکہ بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ مل رہی ہیں، لہٰذا وہ ان کے مابین جاری کشیدگی اور مخاصمت میں زیادہ دیر تک غیر جانبدار رہ سکتا ہے اور نہ وہ اس کو نظرانداز کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے“۔
سید گیلانی نے کہا ہے” کشمیری قوم پچھلے 70سال سے اس آگ سے جل رہی ہے اور مشکلات اور مصائب کے دراز سلسلے نے ہماری نئی نسل کو اتنا زیادہ برہم کردیا ہے کہ وہ خالی ہاتھ نکل کر توپ وتُفنگ کے آگے سینہ سپر ہوجاتی ہے۔ ایسے میں چین کے سامنے آنے سے تنازعہ کشمیر ایک زیادہ خطرناک رُخ اختیار کرسکتا ہے اور اس صورتحال میں جموں کشمیر کے باضابطہ ایک میدانِ جنگ میں تبدیل ہونے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ہے“۔دونوں ممالک کو مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ ہونے کی اہمیت و ضرورت سمجھاتے ہوئے بیان میں مزید کہا گیا ہے”ریاست کے اندر جو آتش فشانی فضا تیار ہورہی ہے، اس کو محض دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے اور کشیدگی کے موجودہ ماحول میں اس ضرورت کو کوئی بھی پورا کرسکتا ہے۔ یہ بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کے لیے ایک کڑے امتحان کا وقت ہے، تدّبر اور ہوشمندی کا مظاہرہ کرکے وہ ایک نئی تاریخ رقم کرسکتے ہیں اور ان کی کسی بھی طرح کی لاپرواہی کو تاریخ کسی بھی صورت میں معاف نہیں کرے گی“۔