سرینگر//بی جے پی نے ،کبھی کشمیر میں بھاجپا کے چہرے کے بطور پیشہوتی رہیں،حِنا بٹ کو ضلع سطح کی ایک عام کارکن بتاتے ہوئے اُنہیں پارٹی کا کوئی لیڈر ماننے سے انکار کردیا ہے۔ کانگریس لیڈر منی شنکر ائر و دیگراں کے اہتمام سے منعقدہ ایک گول میز کانفرنس میں حِنا کی شرکت سے پارٹی کے متفق نہ ہونے کی بات بتاتے ہوئے ٹیلی ویژن پر پارٹی کا چہرہ مانے جانے والے سمبت پاترا نے کہا کہ حِنا نے پارٹی سے پوچھ کر اس پروگرام میں شرکت نہیں کی تھی۔
حِنا بٹ نے بھاجپا کی ٹکٹ پر سرینگر کی اہم ترین امیرا کدل نشست سے اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا تاہم وہ بُری طرح ہار گئی تھیں۔
ایک ٹیلی ویژن مباحثے میں اینکر نے بعض کانگریس لیڈروں کے ”علیٰحدگی پسندوں کے ساتھ قہوہ پینے“پر زبردست اعتراض جتایا اور اسے ”غداری“ کے برابرجُرم بتایا۔ یاد رہے کہ کانگریس لیڈر منی شنکر ائر ابھی وادی کے دورے پر ہیں اوراُنہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سرینگر میں ایک گول میز کانفرنس کا بھی انعقاد کیا تھا جس میں مین اسٹریم کے کئی سیاسی لیڈروں، صحافیوں، سیول سوسائٹی کے ممبران اور نچلی سطح کے بعض علیٰحدگی پسند لیڈروں نے بھی شرکت کی تھی۔
بعدازاں اُنہوں نے ٹیلی ویژن مباحثوں میں بی جے پی کی ترجمانی کرنا شروع کیا یہاں تک کہ اُنہیں بھاجپا کا ”کشمیری چہرہ“کہا جانے لگا۔دفعہ 370 سے متعلق اُنکے” دبنگ بیان “کو ٹی وی پر خوب کوریج ملی تھی
مباحثے میں بھاجپا کی ترجمانی کرتے رہے سمبت پاترا سے جب یہ پوچھا گیا کہ ”بھاجپا لیڈر حِنا بٹ بھی تو تھیں اس پروگرام میں“ تواُنہوں نے حِنا بٹ کو پارٹی لیڈر ماننے سے صاف اِنکار کیا اور کہا کہ وہ کوئی لیڈر نہیں بلکہ ”ضلع سطح کی ایک کارکن“ ہیں۔ مباحثے میں شریک کشمیرسے جاچکے ایک ہندو نے حِنا بٹ کا وہ بیان سمبت پاترا کو یاد دلایا ،کہ جس میں اُنہوں نے ،جموں کشمیر کو خصوصی پوزیشن دلانے والی آئینِ ہند کی،دفعہ 370 کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کئے جانے کی صورت میں بندوق اُٹھانے کی بات کی تھی، تواُنہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے حِنا بٹ کوئی لیڈر نہیں بن پائی ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ بھاجپا چاہتی تو حِنا بٹ کہیں اور ہوتیں۔
نیشنل کانفرنس اور پھر کانگریس کے سابق ممبرِ پارلیمنٹ و ممبرِ اسمبلی شفیع بٹ کی ،پیشے سے دانتوں کی ڈاکٹر،بیٹی حِنا بٹ نے بھاجپا کی ٹکٹ پر سرینگر کی اہم ترین امیرا کدل نشست سے اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا تاہم وہ بُری طرح ہار گئی تھیں۔ بعدازاںاُنہوں نے ٹیلی ویژن مباحثوں میں بی جے پی کی ترجمانی کرنا شروع کیا یہاں تک کہ اُنہیں بھاجپا کا ”کشمیری چہرہ“ بتانا شروع کہا جانے لگا۔دفعہ 370 سے متعلق اُنکے” دبنگ بیان “کو ٹی وی پر خوب کوریج ملی تھی اور حِنا کو ایک لیڈر کی طرح محسوس ہونے لگا تھا تاہم پارٹی نے بعدازاں اُنہیں کنارے کرنا شروع کیا۔
سمبت پاترا نے حِنا کا دفاع نہیں کیا بلکہ اُنہوں نے کہا کہ وقت آنے پر پارٹی اس بارے میں بھی فیصلہ لے سکتی ہے۔ البتہ ایک بات یہ اُنہوں نے کئی بار دہرائی کہ حِنا بٹ پارٹی کی کوئی لیڈر نہیں ہیں بلکہ وہ ”ضلع سطح کی ایک کارکن ہیں
اس راست سوال پر کہ ”بھاجپا حِنا بٹ کو پارٹی سے نکال باہر کیوں نہیں کرتی ہے“ سمبت پاترا نے حِنا کا دفاع نہیں کیا بلکہ اُنہوں نے کہا کہ وقت آنے پر پارٹی اس بارے میں بھی فیصلہ لے سکتی ہے۔ البتہ ایک بات یہ اُنہوں نے کئی بار دہرائی کہ حِنا بٹ پارٹی کی کوئی لیڈر نہیں ہیں بلکہ وہ ”ضلع سطح کی ایک کارکن ہیں“۔
گرم گفتار اس مباحثے میں میجر گگوئی پر انسانی حقوق کی پامالی کا سنگین الزام ہونے کے باوجوداُنہیں اعزاز سے نوازے جانے پر بات ہورہی تھی اور غیر کشمیری شرکاءِ مباحثہ نے عوامی اتحاد پارٹی کے صدر اور ممبرِاسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید پر غداری کا الزام لگاتے ہوئے اُنکے لئے نہ صرف نا شائستہ زبان کا استعمال کیا بلکہ اُنہیں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی گئی۔ ایک کشمیری نوجوان کو فوجی جیپ کے ساتھ باندھ کر انسانی ڈھال کے بطور استعمال کر چکے میجر گگوئی کے اعزاز کو لیکر ابھی ایک بڑا تنازعہ چل رہا ہے تاہم جموں کشمیر سے باہر اُنکی خوب حمایت ہو رہی ہے۔