وادیٔ کشمیر میں کم عمر، اور بظاہر صحتمند، لوگوں کا حرکتِ قلب بند ہونے سے مرنے کے واقعات ایک تھمنے والا سلسلہ بنتا محسوس ہورہا ہے۔اچانک اور ’’غیر متوقع‘‘ اموات کا یہ سلسلہ جہاں عام لوگوں کو ڈرا چکا ہے وہیں طبی ماہرین بھی انگشت بدنداں بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں۔
تازہ واقعات میں اتوار کو ایک سرپنچ سمیت دو افراد لقمۂ اجل بن گئے جبکہ ایک معروف اسکالر اور نوجوان مترجمِ قران موت و حیات کی کشمکش میں ہیں۔سرکاری ذڑائع نے بتایا کہ جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ضلع کے ایک گاؤں ،بونہ نمبل مٹن،کے پچاس سلہ سرپنچ محمد شعبان شاہ ولد غلام محمد پر دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے لقمۂ اجل بن گئے۔انہیں نزدیکی سب ضلع اسپتال مٹن پہنچایا گیا تو تھا لیکن ڈاکٹروں نے انہیں پہلے سے مرا ہوا قرار دیا۔
اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں جنوبی کشمیر کے ہی ایک اور گاؤں میں محکمۂ صحت کے ملازم عبدالعزیز بٹ ولد غلام قادر نامی شخص بھی اچانک فوت ہوگئے ہیں ۔عبدالعزیز بھی اپنے گھر میں موجود تھے کہ جب انہوں نے سینے میں درد کی شکایت کی اور پلک جھپکنے میں ٹھنڈے پڑ گئے۔گذشتہ چھ دن کے مختصر عرصہ کے دوران وادی میں حرکتِ قلب کے اچانک رُک جانے سے ہونے والی یہ گیارہویں موت تھی اور اچانک مرنے والے ان لوگوں کی عمر بیس سال سے لیکر پچاس سال تک تھی۔
کئی ڈاکٹروں نے موت کے اس کھیل کو نوجوانوں کے غیر صحتمند طرزِ زندگی،سگریٹ نوشی اور منشیات کے استعمال وغیرہ کا نتیجہ بتانا چاہا ہے تاہم اصل بات یہ ہے کہ وہ خود بھی کوئی صحیح سُراغ لگانے میں ناکام ہیں۔
سال بھر ہوئے کشمیر میں کم عمر اور بظاہر صحتمند لوگوں کے اچانک مرنے کے واقعات رونما ہونے لگے ہیں تاہم گذشتہ چند مہینوں سے یہ ایک باضابطہ سلسلہ بن گیا ہے۔ابھی 5جنوری کو وسطی کشمیر کے بڈگام ضلع میں ایک نوجوان ،جو پی ایچ ڈی کر رہے تھے،اچانک حرکتِ قلب کے رُک جانے سے فوت ہوگئے۔انکی عمر 27تھی۔اسکے اگلے دن شمالی کشمیر کے بارہمولہ ضلع میں ایک 22 سالہ لڑکی ،بڈگام ضلع میں 28اور سرینگر میں 35 سالہ نوجوان اسی طرح اچانک دم توڑ بیٹھے۔ 8 جنوری کو پھر سے جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں موت کے فرشتے نے ایک 38 سالہ خاتون کی حرکتِ قلب بند کردی جبکہ اسی روز بڈگام ضلع میں تعینات ایک فورسز اہلکار بھی اسی بہانے ہلاک ہوگئے۔اسکے اگلے روز ایک فورسز اہلکار سمیت مزید دو افراد دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہوگئے اور اتوار کو ایک سرپنچ سمیت مذکورہ بالا دو اشخاص۔ان واقعات کے علاوہ 9 جنوری کی رات کو ہی گاندربل ضلع کے منیگام میں اطہر منیگامی نامی ایک معروف اسکالر کو بھی دل کا دورہ پڑا اور انہیں میڈیکل انسٹیچیوٹ صورہ منتقل کیا گیا جہاں آج انکی انجیو پلاسٹی ہوئی ہے اور انکی حالت تشویشناک بنی ہوئی ہے۔
اطہر منیگامیؔ ایک معروف اسلامی اسکالر ہیں جو مختلف علماٗ و شعرا کے علمی کام کا کشمیری زبان میں ترجمہ کرکے نام کماچکے ہیں۔اطہر نے کئی معروف نعتیہ کلاموں کے علاوہ سیرتی نثر کا کشمیری زباں میں ترجمہ کیا ہے اور وہ ابھی معروف ترین تفسیرِ قران ،مولانا مودودی کے تفہیم القران،کا کشمیری زبان میں ترجمہ کرنے میں مصروف بتائے جاتے ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ اسی منصوبے کے تحت وہ قرانِ کریم کی سورتہُ العنکبوت کا ترجمہ کرنے میں مصروف تھے کہ ان پر دل کا دورہ پڑا۔
دل کا دورہ پڑنے سے ’’غیر متوقع‘‘ طور لقمۂ اجل ہونے والے افراد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کسی بھی بیماری کا شکار نہیں تھے اور بظاہر صحتمند و توانا تھے۔حالانکہ کئی ڈاکٹروں نے موت کے اس کھیل کو نوجوانوں کے غیر صحتمند طرزِ زندگی،سگریٹ نوشی اور منشیات کے استعمال وغیرہ کا نتیجہ بتانا چاہا ہے تاہم اصل بات یہ ہے کہ وہ خود بھی کوئی صحیح سُراغ لگانے میں ناکام ہیں۔
’’سگریٹ وغیرہ پینا تو بُری بات ہے لیکن یہ کوئی نئی ایجاد بھی تو نہیں ہے بلکہ لوگ دہائیوں بلکہ صدیوں سے تمباکو پیتے رہے ہیں۔آخر ابھی ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی نوجوانوں کا دل اچانک کام کرنا چھوڑ رہا ہے‘‘۔
میڈیکل انسٹیچیوٹ صورہ میں شعبۂ امراضِ قلب کے سربراہ ڈاکٹر نسار ترمبو کا کہنا ہے کہ کم عمری میں دل کا دورہ پڑنا نوجوانوں کے غیر صحتمند طرزِ زندگی اور منشیات وغیرہ کے استعمال کا نتیجہ ہوسکتا ہے ۔دیگر کئی ماہرینِ امراضِ قلب نے بھی مختلف انٹرویوز میں ایسی ہی چیزوں کی جانب اشارہ کیا ہے اور طرزِ زندگی میں آئی تبدیلی کو وجہ بتانا چاہا ہے تاہم حیران کُن بات یہ ہے کہ موت کے زیرِ بحث کھیل کا شکار ہونے والوں کی اکثریت منشیات تو دور سگریٹ یا تمباکو وغیرہ کا استعمال بھی نہیں کرتی رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں ڈرے ہوئے ہیں اور وہ ڈاکٹروں کی ’’بہانہ بازی‘‘ کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اصل وجوہات کا پتہ لگائے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
غلام محمد نامی ایک بزرگ کا کہنا ہے’’موت سے انکار ممکن ہے اور نہ فرار،یہ سب قدرت کے ہاتھ میں ہے لیکن جس طرح سے نوجوان لڑکے لڑکیاں دل کا دورہ پڑنے سے مر رہے ہیں اور جس طرح یہ واقعات ایک معمول بنتے جارہے ہیں وہ تشویشناک ہے اور اسے سرسری نہیں لیا جاسکتا ہے‘‘۔حاجی غلام رسول نامی ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ وہ خود بچپن سے سگریٹ اور تمباکو پیتے آرہے ہیں لیکن اسی سال کی عمر کو پہنچنے تک انہیں کبھی صحت کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا ہے۔سیدہ نامی ایک نوجوان خاتون کا کہنا ہے ’’سگریٹ وغیرہ پینا تو بُری بات ہے لیکن یہ کوئی نئی ایجاد بھی تو نہیں ہے بلکہ لوگ دہائیوں بلکہ صدیوں سے تمباکو پیتے رہے ہیں۔آخر ابھی ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی نوجوانوں کا دل اچانک کام کرنا چھوڑ رہا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ بعض لوگ یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ نفسیاتی دباؤ وغیرہ کی وجہ سے دل بیٹھ رہے ہیں لیکن پھر نفسیاتی دباؤ فقط کشمیری نوجوانوں کو ہی لاحق نہیں ہے لیکن اس طرح کہیں بھی دل کا دورہ پڑنا ایک سلسلہ نہیں بنا ہوا ہے کہ جس طرح کشمیر میں یہ ایک کھیل کی طرح جاری ہے۔
حالانکہ گذشتہ دنوں ایک خاص برانڈ کی سگریٹ کو ’’کلپِرٹ‘‘ بتانے کی کوشش کی گئی تھی تاہم لوگوں کا کہنا ہے کہ سرکار اور طبی ماہرین کو اس مسئلے کو نہایت سنجیدگی سے لیتے ہوئے اسکی اصل وجوہات کا پتہ لگا کر نوجوانوں کو ’’بے موت‘‘ مرنے سے بچانے کی سبیل کرنی چاہیئے۔
یہ بھی پڑھیئے