سرینگر// بھارتیہ جنتا پارٹی(بھاجپا)نے اپنے حالیہ بیانات کے متضاد سنیچر کو ایک معنیٰ خیز بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ جموں کشمیر میں سرکار بنانے کیلئے اسے ممبران کی مطلوبہ تعداد دستیاب ہے اور نہ ہی اس حوالے سے پارٹی کسی دوسری پارٹی یا انکے ممبرانِ اسمبلی کے رابطے میں ہے۔بھاجپا کا دعویٰ ہے کہ وہ حکومت سازی کیلئے کوئی تگ و دو بھی نہیں کر رہی ہے۔
کشمیر نیوز سروس کے مطابق بھاجپا کے ریاستی جنرل سکریٹری(تنظیم)اشوک کول نے کہا ہے کہ امرناتھ یاترا کے اختتام کے فوری بعد حکومت سازی کا کوئی امکان نہیں ہے ،جیسا کہ میڈیا میں افواہیں گشت میں ہیں،کیونکہ نہ بھاجپا کے پاس ممبران کی مطلوبہ تعداد ہے اور نہ ہی وہ اسکے لئے کوئی تگ و دو کر رہی ہے۔انہوں نے کہا ہے” فی الحال ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ امرناتھ یاترا کے اختتام کے بعد ریاست میں حکومت سازی کے حوالے سے کوئی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی“۔
ہو نہ ہو محبوبہ مفتی نے واجپائی کے ساتھ اپنے والد کے مراسم کا واسطہ دیکر بھاجپا کو قائل کرنے کی کوشش کی ہو اور اسی لئے پارٹی نے معنیٰ خیز بیان دیتے ہوئے فی الحال مفتی کو تھوڑی سی راحت پہنچائی ہے۔
جموں کشمیر میں بھاجپا اور پی ڈی پی کی سرکار کے 14جون کو گر جانے کے بعد سے ریاست میں گورنر راج نافذ ہے تاہم حکومت گرنے کے روز اول سے ہی بھاجپا کے ”جگاڑ“کرکے نئی حکومت بنانے کے فراق میں ہونے کی خبریں گشت میں رہی ہیں۔چناچہ سرکار کے غیر متوقع طور گرنے کے ابتدائی کئی دنوں میں محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی ٹوٹ کر بکھرجاتے محسوس ہونے لگی تھی اور اندازہ تھا کہ پارٹی کے کئی لیڈران بغاوت کرکے بھاجپا کی حمایت کرکے پھر سے حکومت بنائیں گے۔بعدازاں یہ بتایا جانے لگا کہ بھاجپا امرناتھ یاترا کے اختتام کا انتظار کر رہی ہے جسکے بعد پارٹی کسی بھی طرح کا ”جگاڑ“کرکے پھر سے حکومت بنائے گی کیونکہ ریاست میں ابھی اسمبلی کے اگلے انتخابات میں دو سال کا عرصہ باقی ہے اور پارٹی اتنے لمبے عرصہ تک حکومت کرنے کا موقعہ نہیں گنوانا چاہے گی۔
چناچہ پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری اور جموں کشمیر امورات کے انچارج رام مادھو نے حکومت گرنے کے بعد ریاست کے کئی دورے کئے جن کے دوران انہوں نے واضح طور نہ سہی اشاروں ہی اشاروں میں اس قیاس آرائی کو تقویت پہنچائی تھی کہ پارٹی کی جانب سے نئی سرکار بنانے کی کوشش جاری ہے۔رواں ہفتے کے اوائل میں انہوں نے سرینگر کا ایک اور دورہ کیا تھا جسکے دوران انہوں نے پارٹی لیڈروں کے ساتھ میٹنگ کی ،جہاںذرائع کے مطابق حکومت سازی کو ناگزیر بتایا گیا، اور پھر انہوں نے علیٰحدگی پسندی کا چوغا پھینک ر مین اسٹریم میں آئے سجاد لون کے ساتھ بھی ملاقات کی جو مذکورہ ”جگاڑ“میں بھاجپا کے بعد سب سے اہم کھلاڑی بتائے جارہے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ محبوبہ مفتی نے بھاجپا کے ہاتھوں ذلت اٹھانے کے باوجود بھی راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیرمین کے الیکشن سے دور رہ کر سلیقے سے بھاجپا کی حمایت کی تھی تاہم الیکشن کا نتیجہ آنے کے ساتھ ہی رام مادھو کی صدارت میں سرینگر میں منعقدہ میٹنگ میں پارٹی نے پی ڈی پی کے ساتھ دوبارہ جانے کے کسی بھی امکان کو رد کردیا تھا۔بھاجپا،جسکی معیت پر ابھی چند ماہ پہلے تک محبوبہ مفتی فخر جتاتی تھیں، کی جانب سے تذلیل پر تذلیل کئے جانے کے باوجود بھاجپا کے قد آور لیڈر اور سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے انتقال کرجانے پر محبوبہ مفتی ،اپنے تقریباََ سبھی ممبرانِ اسمبلی اور لیڈروں کو لیکر،ماتم منانے کیلئے دلی گئیں۔ انکے دلی پہنچنے کے اگلے ہی دن اشوک کول کا معنیٰ خیز بیان سامنے آیا ہے۔محبوبہ مفتی کی پارٹی میں بغاوت پہلے ہی سر اٹھا چکی ہے اور انہیں ڈر ہے کہ اگر بھاجپا نے کوشش کی تو پی ڈی پی تاش کے پتوں کے ایک محل کی طرح ایک ہی جھٹکے میں لڑکھڑا کر گر اور پھر بکھر جائے گی۔
محبوبہ نے بحیثیت وزیر اعلیٰ کے شائد ہی کوئی ایسی تقریر کی ہو کہ جس میں ”واجپائی جی“کا تذکرہ نہیں آیا ہو۔حالانکہ محبوبہ کے والد وزیر اعظم مودی کی تعریفوں میں ایک باہر حد سے باہر جاکر انہیں ”طوفان کا آدمی“قرار دے چکے ہیں
مبصرین کا اندازہ ہے کہ ہو نہ ہو محبوبہ مفتی نے واجپائی کے ساتھ اپنے والد کے مراسم کا واسطہ دیکر بھاجپا کو قائل کرنے کی کوشش کی ہو اور اسی لئے پارٹی نے معنیٰ خیز بیان دیتے ہوئے فی الحال مفتی کو تھوڑی سی راحت پہنچائی ہے۔واضح رہے کہ مفتی سعید اور انکی صاحبزادی سابق وزیر اعظم اٹک بہاری واجپائی کے اس حد تک گن گاتی رہی ہیں کہ محبوبہ نے بحیثیت وزیر اعلیٰ کے شائد ہی کوئی ایسی تقریر کی ہو کہ جس میں ”واجپائی جی“کا تذکرہ نہیں آیا ہو۔حالانکہ محبوبہ کے والد وزیر اعظم مودی کی تعریفوں میں ایک باہر حد سے باہر جاکر انہیں ”طوفان کا آدمی“قرار دے چکے ہیں تاہم انہیں شائد ہی معلوم تھا کہ یہ شخص واقعہ ”طوفان کا آدمی“ثابت تو ہوگا لیکن اسکے طوفان کی سب سے بڑی شکار خود مفتی سعید کی کھڑا کی ہوئی پارٹی ہوگی۔ایک تجزیہ نگار نے،انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر ،بتایا”چونکہ پی ڈی پی میں محبوبہ مفتی کو چھوڑ کر تقریباََ سبھی لوگ کسی کے ساتھ بھی جانے کو تیار ہیں تاکہ انہیں وزیر بنایا جاسکے،حد تو یہ ہے کہ کچھ لوگ خود کے وزیر اعلیٰ تک بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں لہٰذا محبوبہ مفتی کی کوشش ہے کہ سرکار نہ بننے پائے اور اگر بنے بھی تو ذلت کے ساتھ ہی سہی لیکن پی ڈی پی کسی نہ کسی طرح اس میں شامل ہو“۔
انہوں نے کہا”ممکن ہے کہ واجپائی کی ماتم داری کے دوران محبوبہ نے بھاجپا ہائی کمان سے ملاقات کی ہو اور اسے واجپائی اور مفتی سعید کے مراسم اور خود بھاجپا کے موجودہ لیڈروں کے ساتھ رہے مراسم یاد دلائے ہوں اور انہوں نے اسے تھوڑی راحت دلانے کیلئے فی الحال پارٹی کے مقامی یونٹ کو ایک اخباری بیان جاری کرنے کیلئے کہا ہو،لیکن میرے خیال میں بھاجپا سرکار بنانے کی تیاری میں ہے اور پی ڈی پی کو ایک بار پھر دھول چٹا ہی لی جائے گی“۔
یہ بھی پڑھئیں