اسلام آباد// زینب نامی کمسن بچی کی عصمت دری اور قتل کے غمناک قتل میں اہم پیشرفت کے بطور پنجاب پولس نے مجرم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو مذخورہ بچی کا پڑوسی بتایا جاتا ہے۔پولس کا کہنا ہے کہ پکڑے گئے شخص کا ڈی این اے کیا گیا ہے اور چند گھنٹوں میں حتمی رپورٹ آجانے پر انکیتفصیلات ظاہر کی جائیں گی تاہم مختلف ٹیلی ویژں چینلوں نے نہ صرف ملزم کی شناخت ظاہر کی ہے بلکہ اسکی تصویر بھی جاری کردی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق گرفتار کیا جانے والا ملزم قصور کے علاقے روڈ کوٹ کا ہی رہائشی ہے اور اسے پیر کی شب حراست میں لیا گیا۔8سالہ زینب انصاری کو رواں ماہ کے آغاز میں کوٹ روڈ پر واقع ان کی رہائش گاہ کے قریب سے اغوا کر لیا گیا تھا اور ان کی لاش چند دن بعد ایک کوڑے کے ڈھیر سے ملی تھی۔زینب کی لاش ملنے کے بعد قصور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔اتوار کو چیف جسٹس نے اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے ادراوں کو مزید 72 گھنٹے کی حتمی مہلت دی تھی جو آج ختم ہو رہی ہے۔
ملزم کو پولیس نے پاک پتن سے حراست میں لیا اور چونک وہ حلیہ تبدیل کرتے رہتے تھےجسکی وجہ سے انہیں گرفتار کرنا ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔
پنجاب حکومت کے ترجمان محمد احمد خان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ ملزم کو اس سے پہلے بھی حراست میں لیا گیا تھا تاہم ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔تاہم اب انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ڈی این اے کی حتمی رپورٹ منگل کی شام چھ بجے تک متوقع ہے جس کے بعد مزید تفصیلات فراہم کی جائیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ’ ’کچھ ایسے شواہد ملے ہیں کہ جو اسے ملزم قرار دیتے ہیں، تاہم حتمی رپورٹ آنے کے بعد ہی درست طریقے سے تفتیش کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے“۔ حکومتِ پنجاب کے ترجمان کے مطابق ملزم کو پولیس نے پاک پتن سے حراست میں لیا اور چونک وہ حلیہ تبدیل کرتے رہتے تھےجسکی وجہ سے انہیں گرفتار کرنا ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔
محمد احمد خان کے مطابق زینب کیس کی تفتیش کے دوران قصور میں 600 افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیاہے۔خیال رہے کہ اس ملزم کی گرفتاری پر زینب ہی نہیں، ان سات بچیوں کے مقدمات کا حل بھی منحصر ہے جنہیں قصور میں گذشتہ دو برس کے دوران اِغوا کرنے کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا گیاہے۔ پولیس کے مطابق ان میں سے تین خوش قسمتی سے زندہ بچ گئیں۔قصور پولیس کے مطابق ان تمام وارداتوں میں ایک ہی شخص ملوث ہے۔ قصور کے ضلعی پولیس افسر زاہد علی مروت نے بتایا تھا کہ اس امر کی تصدیق ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے کی جا چکی ہے۔’ان کے مطابق”مردہ اور زخمی حالت میں ملنے والی تمام بچیوں کے جسموں سے حاصل کیے جانے والے ڈی این اے کے نمونے آپس میں مطابقت رکھتے ہیں یعنی وہ ایک ہی شخص کے ہیں“۔بچیوں کے اغوا اور ان سے جنسی زیادتی کے بعد قتل کی یہ وارداتیں زینب انصاری کی رہائش گاہ کے تقریباً تین مربع کلومیٹر کے علاقے میں ہوئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں