استنبول// اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کا ہنگامی اجلاس آج ترکی کے شہر استنبول میں شروع ہو رہا ہے جس میں امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے بعد کے لائحہ عمل کا جائزہ لیا جائے گا۔
57 رکنی تنظیم او آئی سی کی صدارت اس وقت ترکی کے پاس ہے اور ترک صدر طیب رجب اردوغان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف آواز اٹھا چکے ہیں۔ادھر سنیچر کو عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں امریکہ پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اپنے اس اقدام کو واپس لے۔ تاہم عرب ممالک کی جانب سے اس حوالے سے اب تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔او آئی سی کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے یکہ طرفہ فیصلے کے بعد سے اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات بڑی تیزی سے کشیدگی کی طرف سے بڑھتے چلے جا رہے اور اتوار کو دونوں ملکوں کے رہنماؤں کی طرف سے تلخ بیانات کا تبادلہ ہوا ہے۔
اس سے قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے امریکہ کی طرف سے اس متنازع فیصلے کے خلاف لڑنے کا اعلان کیا اور اسرائیل کو ایک ‘دہشت گرد’ ریاست قرار دیا جو بچوں کو قتل کرتی ہے۔
چند گھنٹوں بعد اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے لیڈر سے لیکچر نہیں لیں گے جو کردستان کے دیہاتوں پر بم برساتا ہے اور دہشت گردوں کی مدد کرتا ہے۔حالیہ برسوں میں دونوں ملک کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یروشلم کے بارے میں فیصلے کے بعد ترکی نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور انقرا میں امریکی سفارت خانے کے سامنے سب سے پہلے عوامی احتجاج کیا گیا۔واضح رہے کہ امریکہ دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔
اس فیصلے کے بعد سعودی عرب کے خفیہ ادارے کے ایک سابق سربراہ نے تنبیہ کی ہے کہ یہ فیصلہ ‘انتہا پسند گروہوں کے لیے آکسیجن’ کا کردار ادا کرے گا جس کے بعد ‘انھیں سنبھالنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔’فلسطینی علاقوں میں اس فیصلے کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں اب تک چار فلسطینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ فیصلے کے بعد غزہ پٹی سے مبینہ راکٹ حملوں کے جواب میں اسرائیل نے فضائی کارروائیاں بھی کی ہیں جن میں سینکڑوں افراد زخمی ہو گئے ہیں۔