سرینگر// وادی کشمیر کے ایک سرگرم اسلامی کارکن اور داعی محمد عامر نے اُنہیں اور اُنکے رفقاءکو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے حراساں کئے جانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ضلع کمشنر سرینگر اور پولس حکام کی یقین دہانیوں کے باوجود بھی پُراسرار افراد اُنکے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔
”گئے فروری میں راجباغ میں میرے اسکول کے باہر موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم افراد نے مجھے روکا اور دھمکی آمیز لیجے میں بولا کہ میں اپنا کام بند کروں یا نتیجہ بھگتنے کو تیار ہوجاوں“۔
اسلامک فیٹرنٹی نامی تنظیم کے صدر محمد عامر نے کل یہاں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کس طرح اُنہیں ایک عرصہ سے حراسان و پریشان کیا جارہا ہے اور وہ کس قدر خوفزدہ محسوس کررہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ 19مئی کو جب وہ کسی کام سے ممبئی میں تھے اُنہیں اُنکے میزبان کے ہاں شام ساڑھے آٹھ بجے کسی نا معلوم شخص نے فون کیا اور پھر اُنکے فون پر بھیجے گئے پتہ پر پہنچنے کے لئے کہا گیا جہاں گھنٹہ بھر میں پہنچ جانے کے بعد اُن سے رات ساڑھے بارہ نجے تک پوچھ تاچھ کی گئی۔اُنہوں نے کہا کہ اگلی صبح اُنکے ہوٹل پر ”ایجنسیوں“نے چھاپہ مارا اور اُنکے کمرے کی تلاشی کے دوران اُنکے پاس قرانِ شریف پانے پر اُنسے مزید سوال و جواب کیا گیا۔عامر کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے خوفزدہ ہوکر فوری طور سرینگر کے لئے ہوائی جہاز کی ٹکٹ لی اور یہاں پہنچتے ہیں اُنہوں نے ضلع کمشنر اور آئی جی پولس کے پاس تحریری فریاد کی۔وہ کہتے ہیں کہ ضلع کمشنر نے اُنہیں اس معاملے کو دیکھ لینے کی یقین دہانی کرائی تاہم وہ اُنہیں حراساں کرنے والی ”ایجنسی“کا نام لینے سے ڈرتے ہیں۔اُنکا کہنا ہے”میں اُنکا نام نہیں لینا چاہتا ہوں،اُنہیں میرے اور میرے کام کے بارے میں سب معلوم ہے یہاں تک کہ اُنکے پاس میری کچھ ویڈیوز بھی موجود ہیں“۔اُنہوں نے کہا کہ ممبئی میں وہ جن صاحب کے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے بعدازاں اُنہیں بھی حراساں کیا جانے لگا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ مذکورہ کے بنک اکاونٹ کی تفصیلات لی جاچکی ہیں اور وہ انتہائی خوفزدہ ہے۔
محمد عامر نے کہا کہ اس سے قبل سرینگر میں بعض نا معلوم اور پُراسرار افراد اُنکے اسکول میں آکر اُنکے بارے میں پوچھتے رہے ہیں اور ایک دفعہ تو اُنہیں زبردستی کہیں لیجانے کی بھی کوشش ہوئی ہے۔اُنہوں نے کہا کہ پہلے پہل تو وہ ان واقعات کو سرسری لیتے ہوئے نظرانداز کرتے رہے تاہم اب وہ اس بارے میں متفکر ہیں۔اُنہوں نے کہا”گئے فروری میں راجباغ میں میرے اسکول کے باہر موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم افراد نے مجھے روکا اور دھمکی آمیز لیجے میں بولا کہ میں اپنا کام بند کروں یا نتیجہ بھگتنے کو تیار ہوجاوں“۔اُنہوں نے مزید کہا کہ غیر کشمیری لہجے میں بات کرتے ہوئے ہیلمٹ پہنے ہوئے ان دو اشخاص نے اُنہیں جن الفاظ میں دھمکی دی اُنہیں وہ قیامت تک نہیں بھول سکتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا”اُن لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ کارکانہ بند کردو ورنہ حالات خراب ہو جائیں گے“۔اُنہوں نے کہا کہ اسکے بعد بھی کئی بار اُنہوں نے اُنکے ارد گرد مشکوک سرگرمیاں ہوتے محسوس کی ہیں جنکے بارے میں اُنہوں نے پولس کو مطلع کیا تو اُنہیں سکیورٹی ساتھ رکھنے کا مشورہ ملا جسے تاہم اُنہوں نے قبول نہیں کیا ہے۔
”اُن لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ کارکانہ بند کردو ورنہ حالات خراب ہو جائیں گے“۔
ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ اُنہیں دعوتی کام کرنے کے لئے حراساں کیا جارہا ہے کیونکہ پوچھ تاچھ کے دوران اُنسے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بارے میں کئی سوالات پوچھے گئے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ اُنکا ڈاکٹر نائیک کی ممنوعہ قرار دی جاچکی تنظیم کے ساتھ کوئی باضابطہ رابطہ نہیں ہے تاہم اُنہوں نے سوالوں کے جواب میں کہا ہے کہ اُنکے مطابق ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک امن پسند شخص اور داعی اسلام ہیں۔
محمد عامر نے کہا کہ 2006میں قائم کردہ اسلامک فیٹرنٹی دعوتی کام کرنے کے علاوہ بچوں کا ایک سکول چلاتی ہے اور حال ہی ریاست کا پہلا آن لائن اسلامک ریڈیو،صوت الالسلام، شرو ع کرچکی ہے۔اُنہوں نے کہا کہ وہ کوئی خفیہ کام نہیں کرتے ہیں لہٰذا اُنہیں اُمید ہے کہ اُنہیں کسی پریشانی کے بغیر دعوتی اور تعلیمی کام کرتے رہنے دیا جائے گا۔