سرینگر// وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں مزید فوجی جماو¿ کرنے اور نئے فوجی کیمپ قائم کئے جانے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے بزرگ علیٰحدگی پسند رہنما سید لی شاہ گیلانی کی حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو بندوق و بارود سے حل نہیں کیا جا سکتا ہے۔حریت نے ایک بیان میں کہا ہے” بھارت کی موجودہ حکومت تنازعہ کشمیر کے حوالے سے کوئی بامعنیٰ اور سنجیدہ سیاسی عمل اپنانے کے بجائے فوجی ذہنیت سے کام کرتی ہے اور وہ کشمیر میں جنگ جیسی صورتحال پیدا کرکے یہاں کے لوگوں کو زیر کرانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے“۔حریت نے اسے ”باوثوق ذرائع“سے یہ پتہ چلنے کا دعویٰ کیا ہےکہ مرکزی حکومت نہ صرف مزید فوجی کیمپ قائم کرنے اور بندوق وبارود کی بھاری کھیپ کشمیر بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے، بلکہ اس نے جموں کشمیر میں ”اخوان“ کو نئے سرے سے سرگرم بنانے کا پروگرام بھی بنایا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے” مذکورہ اخوانیوں کو باضابطہ پیرول پر لینے کا لالچ دیا جارہا ہے اور ذرائع کے مطابق کئی افراد نئے سرے سے کام کرنے پر آمادہ بھی ہوگئے ہیں“۔یاد رہے کہ وادی میں نوے کی دہائی کے وسط میں فوج نے سابق جنگجوو¿ں پر مشتمل اخوان نام سے ایک گروپ تشکیل دیا تھا جس نے وادی کے طول و ارض میں ڈر اور خوفناک کی دہلادینے والی داستانیں رقم کی تھیں۔
” مذکورہ اخوانیوں کو باضابطہ پیرول پر لینے کا لالچ دیا جارہا ہے اور ذرائع کے مطابق کئی افراد نئے سرے سے کام کرنے پر آمادہ بھی ہوگئے ہیں“۔
حریت بیان میں کہا گیا ” اس وقت تک ایک ہزار کے لگ بھگ فوجی کیمپ ایسے ہیں، جو سِول آبادیوں میں قائم ہیں اور اب درجنوں دیہات میں نئے کیمپ قائم کئے جارہے ہیں، اس کے لیے کئی جگہ خالی زمینوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے اور ان پر زبردستی قابض ہونے کی تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں“حریت کا یہ بیان جنوبی کشمیر میں کئی جگہوں پر نئے فوجی کیمپ قائم کئے جانے کی خبروں کے ردعمل میں سامنے آیا ہےمرکزی سرکار کو مخاطب کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے” وہ جس راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں، وہ کہیں بھی نہیں جاتا ہے، کشمیر قضئیے کا کبھی بھی کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے اور نہ بندوق اور بارود کے ذریعے سے اس گُھتی کو سلجھایا جانا ممکن ہے، آپ ظلم اور قہر ڈھاکر ریاست میں قبرستان کی خاموشی تو قائم کراسکتے ہیں، لیکن یہ کوئی مستقل اور پائیدار صورت نہیں ہوگی،یہ ایک عارضی مرحلہ ہوگا اور کچھ وقت گزرنے کے بعد صورتحال پھر پلٹا کھائے گی اور زیادہ خطرناک رُخ اختیار کرے گی“۔
”آپ ایک نسل کو طاقت سے دباکر مایوس تو کراسکتے ہیں، البتہ اگلی نسل نتائج کی پرواہ کئے بغیر میدان میں اُترتی ہے اور مقابلے کے لیے تیار ہو جاتی ہے“۔
حریت کے بیان میں مزیدکہا گیا ہے” بھارت کے پالیسی ساز بہترین ملٹری سوچ کے حامل ہوسکتے ہیں، البتہ کشمیر کے بارے میں یہ سوچ کوئی زیادہ فائدہ نہیں دے سکتی ہے،اس کے لیے ملٹری اور پولیس والوں کی بجائے سیاسی بصیرت رکھنے والے افراد کی ضرورت ہے، آپ ایک نسل کو طاقت سے دباکر مایوس تو کراسکتے ہیں، البتہ اگلی نسل نتائج کی پرواہ کئے بغیر میدان میں اُترتی ہے اور مقابلے کے لیے تیار ہو جاتی ہے“۔ حریت نے مزورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مرکزی سرکار کشمیر کو اَنا کا مسئلہ بنانے کی بجائے ٹھنڈے دل ودماغ سے صورتحال پر غور کرکے اور اس تنازعے کو ملٹری مائیٹ کے بجائے ایک سنجیدہ سیاسی عمل کے ذریعے سے حل کرانے کی طرف پیش قدمی کی جائے۔