سرینگر// آستانہ میں ہندوپاک وزرائِ اعظم کے ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کرنے کو ”موجودہ حالات میں بہت کچھ“اور ایک اچھی بات بتاتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ اور حزب اختلاف کے لیڈر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ انکے مصافحے سے آگے بڑھکر ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت بھی کرنی چاہیئے۔اُنہوں نے کہا ہے کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کبھی نہ بھی ہوپائے لیکن انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ وہ ہمیشہ کے لئے ایکدوسرے کے پڑوسی ہیں اور پڑوسیوں کے درمیان دشمنی سود مند نہیں ہوتی ہے۔
عمر عبداللہ نے مزید کہاہے کہ بات چیت میں کسی ناخوشگوار واقعہ کو زیادہ اڑچن بنانا عقلمندی نہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ممبئی حملوں اور پارلیمنٹ حملے کے بعد بھی مذاکرات ہوئے اور دوستی پروان چڑھی۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مسئلے اور مسائل بات چیت کے ذریعے حل ہوئے ہیں اور ہمیں بھی یہی راہ اختیار کرکے مسائل کا حل ڈھونڈ نکالنا چاہئے۔
وادی میں سکولوں اور کالجوں کی صورتحال پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں عمر عبداللہ نے کہا کہ فوری طور پر سکول بند کرنا اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انہوں نے کہاہے” اس سال ہمیں نئی صورتھال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، بھاری تعداد میں طلباءو طالبات کا احتجاج دیکھنے کو مل رہا ہے۔سکول بند کرنے، سکولوں میں ٹیئر گیس داغنے، اساتذہ اورطلباءکو ڈرانے دھمکانے سے یہ مسئلہ حل نہیں بلکہ اور پیچیدہ ہوتا جائے گا“۔
ان دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کبھی نہ بھی ہوپائے لیکن انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ وہ ہمیشہ کے لئے ایکدوسرے کے پڑوسی ہیں اور پڑوسیوں کے درمیان دشمنی سود مند نہیں ہوتی ہے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ اعلیٰ سطحی کے نمائندوں کو ان سکولوں اور کالجوں میں بھیجیں اور طلباءو طالبات کیساتھ بات کریں اور دریافت کریں کہ اگر گذشتہ سال یہ طلباءسکول جانے کیلئے ترس رہے تھے تو امسال وہ کتابوں کی بجائے احتجاج کو ترجیح کیوں دے رہے ہیں۔حکومت کو دھونس و دباﺅ کی پالیسی ترک کرکے ان طلباءو طالبات کی کونسلنگ کی جائے اور ان کی بات سنی جائے۔مسئلہ تب حل ہوگا جب ہم ان بچوں کی ناراضگی سمجھنے کی کوشش کریں گے لیکن 50دن سے زائد ہونے کے باوجود بھی حکومت سطح پر ایسی ایک بھی کوشش نہیں ہوئی۔
15اپریل کو جنوبی کشمیر کے پلوامہ قصبہ میں سرکاری فورسز کے ایک کالج میں گھس کر یہاں قریب اسی طالبات کو زخمی کردئے جانے کے بعد سے وادی میں طلباءکی ایک طویل احتجاجی تحریک چلی ہے جس پر قابو پانے میں ناکامی کے بعد حالیہ ایام میں سرکاری انتظامیہ اکثر و بیشتر اسکولوں اور کالجوں میں چھٹی کراتی آئی ہے
واضح رہے کہ 15اپریل کو جنوبی کشمیر کے پلوامہ قصبہ میں سرکاری فورسز کے ایک کالج میں گھس کر یہاں قریب اسی طالبات کو زخمی کردئے جانے کے بعد سے وادی میں طلباءکی ایک طویل احتجاجی تحریک چلی ہے جس پر قابو پانے میں ناکامی کے بعد حالیہ ایام میں سرکاری انتظامیہ اکثر و بیشتر اسکولوں اور کالجوں میں چھٹی کراتی آئی ہے تاکہ طلباءاسکول یا کالج پہنچ کر جمع ہوکر احتجاج نہ کر پائیں۔