سرینگر//پاکستان میں بھارت کے مبینہ جاسوس کلبھوشن یادو کو دی گئی سزائے موت پر عالمی عدالت کی جانب سے روک لگائے جانے پر عالمی عدالت کے ہی ایک سابق جج نے کہا ہے کہ فیصلہ اب بھی پاکستان کو ہی کرنا ہے۔عالمی عدالت انصاف کے سابق جج جسٹس علی نواز چوہان کا کہنا ہے کہ جمعرات کو آنے والا فیصلہ صرف یہ تھا کہ اس مقدمے کے لیے جو نئے تقاضے مرتب کیے گئے ہیں پاکستان ان کے مطابق ری ٹرائل کرے۔بی بی سی کے ریڈیو پروگرام سیربین میں بات کرتے ہوئے جسٹس علی نواز چوہان کا کہنا تھا ” ’اصل کیس تو ابھی بھی پاکستان کے ہی دائرہ اختیار میں ہے اور پاکستان نے ہی اس کا فیصلہ کرنا ہے“۔علی نواز چوہان نے کہا ” ’جہاں تک سزائے موت کا تعلق ہے، اس کا فیصلہ روک دیا گیا ہے اور وہ یہی چاہ رہے ہیں کہ اس کا ری ٹرائل ہو اور کلبھوشن کو پھانسی نہ دی جائے“‘
اگر پاکستان یہ موقف لے لیتا کہ ہم کلبھوشن یادھو کو سزا اس وقت تک نہیں دیں گے جب تک کہ عدالتی کارروائی پوری نہیں ہو جاتی تو شاید عالمی عدالت کی جانب سے حکم امتناع جاری نہیں ہوتا لیکن پاکستان نے یہ چیز وہاں نہیں کہی۔
خیال رہے کہ جمعرات کو عالمی عدالتِ انصاف نے پاکستان سے کہا کہ انڈین نیوی کے سابق اہلکار اور مبینہ جاسوس کلبھوشن یادھو کی سزائے موت پر اس وقت تک عملدرآمد نہ کیا جائے جب تک عدالت اس سلسلے میں بھارتی درخواست پر حتمی فیصلہ نہ سنا دے۔بھارت نے یادو کے بچاو میں عالمی عدالتِ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا ہوا ہے ۔اس حوالے سے علی نواز چوہان نے مزیدکہا”یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ فیصلہ انڈیا کے حق میں گیا ہے، یہ تو درمیانی فیصلہ ہے“۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس اوپر کی عدالتوں میں اپیل کرنے کا موقع ہے اور ان میں بھی یہی اعتراضات اُٹھائے جانے تھے کہ قونصلر رسائی نہیں ملی۔اُنہوں نے مزید کہا” اگر پاکستان یہ موقف لے لیتا کہ ہم کلبھوشن یادھو کو سزا اس وقت تک نہیں دیں گے جب تک کہ عدالتی کارروائی پوری نہیں ہو جاتی تو شاید عالمی عدالت کی جانب سے حکم امتناع جاری نہیں ہوتا لیکن پاکستان نے یہ چیز وہاں نہیں کہی۔اصل بات یہ ہے کہ پاکستان اگر یہ ثابت کر دے کہ کلبھوشن یادھو گناہ گار ہے تو معاملہ حل ہو جائے گا، اب یہ پاکستان کا کام ہے کہ وہ عدالت میں ثبوت لے کر جائے“۔