سرینگر//
نئی دلی کے بعض اخباروں کی جانب سے جموں کشمیر میں سعودی اور پاکستانی ٹیلی ویژن چینلوں کے ذرئعہ بنیاد پرستی اور بھارت مخالف جذبات پیدا کئے جانے کا الزام لگانے جانے کے بعد جموں کشمیر میں کم از کم 34 چینلوں کی نشریات پر پابندی لگائی گئی ہے۔ ممنوعہ قرار دی جاچکے ان چینلوں میں تفریح اور لائف اسٹائل کے علاوہ مختلف ممالک کے پکوان بناناے کی تربیت دینے والے چینل بھی شامل ہیں۔ حکومت نے عربی زبان کے چینل بھی بند کردئے ہیں حالانکہ جموں کشمیر میں لوگ عربی سمجھتے ہیں نہیں ہیں۔
داخلہ سیکریٹری آر کے گوئل نے اپنے حکم نامہ میں کہا ’’ غیر اجازت یافتہ ٹی وی چینلوں کی نشریات سے جہاں قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے،وہیں وادی کشمیر میں تشدد میں اضافہ ہونے اور امن و قانون میں رخنہ پڑنے کا احتمال ہے‘‘۔ تاہم حکم نامے میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ مذہبی ،کھیل کوداور تفریحی چینلوں سے کس طرح حالات میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔ جن چینلوں پرپابندی عائد کرنے کے احکامات صادر کئے گئے ہیں ان میں14مذہبی چینل ہیں جن میں ’پیس ٹی وی(اُردو،انگریزی)،اے آر وائی کیوٹی وی،مدنی چینل،نورٹی وی،ہادی ٹی وی،پیغام،ہدایت،سعودی السنی النبیہٰ،سعودی القرآن الکریم،سحر،کربلاٹی وی ،اہل بیت ٹی وی ،مسیج ٹی وی شامل ہیں۔
9 تفریحی چینلوں میںہم ٹی وی،اے آروائی ڈیجٹل ایشیاء،ہم ستارے،اے آروائی زندگی ،اے آروائی میوزک،اے آر وائی مسالہ،اے آر وائی ذوق،اے ٹی وی شامل ہیں۔ کھیل کود کے ایک چینل پی ٹی وی اسپورٹس کی نشریات بھی بند کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ حالات حاضرہ و خبروں کے 10چینلوں میں جیونیوز،اے آروائی نیوز،اے آر وائی نیوز ایشیاء ،اب تک نیوز،92نیوز،وصیب نیوز،جیوتیز،سماع نیوز،دنیانیوزاورایکسپریس نیوز نیوز چینل شامل ہیں۔
دلچسپ ہے کہ وصیب نیوز پشتو زبان میں عام تفریحی چینل ہے ۔شہریوں کا کہنا ہے کہ جن مذہبی چینلوں کو بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے ان میں زیادہ صوفی چینلیں ہیں۔ حال ہی میں دہلی میں کشمیر کے حوالے سے ایک مباحثے کا اہتمام کیا گیا تھا،جس میں دانشوروں کے علاوہ سابق بیرکریٹوں اور فوجی افسران نے کشمیر میں شدت پسندی کو ختم کرنے کے لئے’’صوفی اسلام ‘‘ کو فروغ دینے کی بات کہی تھی۔
کیبل آپریٹروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس فیصلے سے انکے کاروبار میں براہ راست منفی اثرات مرتب ہونگے۔انہوں نے بتایا کہ اگر خبروں اور حالات حاضرہ کے چینلوں سے حالات خراب ہونے کا احتمال سمجھا جاسکتا ہے لیکن مذہبی چینلوں کو بند کرنے کا کوئی بھی منطق نظر نہیں آتا۔