سرینگر//
اننت ناگ پارلیمانی حلقے کے ضمنی انتخاب کی منسوخی کے لئے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو فقط یہاں کی خراب صورتحال نے ہی آمادہ نہیں کیا ہے بلکہ انتخابات میں بہت کم لوگوں کے شریک ہونے کے اندازے نے کمیشن کو اتنا بڑا فیصلہ لینے پر مجبور کر دیا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ ریاستی سرکار نے الیکشن کمیشن کو بتایا تھا کہ مئی25کو پروگرام کے مطابق انتخاب عمل میں لایا گیا تو نہ صرف یہ کہ ووٹوں کی شرح فی صد انتہائی کم رہے گی بلکہ جنوبی کشمیر میں جاری جنگجو مخالف آپریشن بھی متاثر ہوجائینگے۔
اننت ناگ کی پارلیمانی نشست اسوقت خالی ہوگئی تھی کہ جب ریاست کی موجودہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے والد مفتی سعید کی جگہ لینے کے لئے پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔مفتی سعید گذشتہ سال 7جنوری کو نئی دلی میں طبی موت مرگئے تھے جسکے کئی ماہ بعد انکی صاحبزادی محبوبہ مفتی نے وزارتِ اعلیٰ سنبھالی ہے۔انکے استعفیٰ سے خالی ہوچکی اننت ناگ کی پارلیمانی نشست کے لئے پہلے12مئی کو ضمنی انتخاب طے تھا جسے بعدازاں 25مئی تک کے لئے موخر کردیا گیا تھا تاہم بعدازاں الیکشن کمیشن نے نوٹی فکیشن واپس لیتے ہوئے انتخاب کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔اس تنسیخ کے لئے وادی کی خراب صورتحال کو وجہ بتایا گیا تھا تاہم الیکشن کمیشن نے اب دس صفحات پر مشتمل ایک دستاویز جاری کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ خرابی حالات ہی واحد وجہ نہیں رہی ہے۔اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ریاستی چیف سکریٹری نے20اپریل کو الیکشن کمیشن کو ایک رپورٹ سونپ دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پولنگ مراکز کے بطور چنے گئے اسکولوں،پنچایت گھروں اور اس طرح کی دیگر عمارتوں کی آتش زنی،سیاسی کارکنوں کی حراسانی اور پولس اہلکاروں کے رشتہ داروں کو ڈرائے دھماکئے جانے سے وادی میں عدم تحفظ،ڈر اور افراتفری کا ماحول بن گیا ہے۔
ریاستی سرکار کی جانب سے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اگر پروگرام کے مطابق انتخاب عمل میں لایا گیا تو اننت ناگ میں زبردست تشدد بھڑک سکتا ہے اور ووٹ دہی کی شرح انتہائی کم رہ سکتی ہے۔واضح رہے کہ 9اپریل کو سرینگر کی لوک سبھا نشست کے لئے ہوئے ضمنی انتخاب میں 1967سے سب سے کم چھ فی صد ووٹ پال ہوتے دیکھے گئے ہیں۔اننت ناگ کی نشست کے لئے منعقد ہونے جارہے انتخاب کی منسوخی کو خود علیٰحدگی پسندوں نے ہی اپنی کامیابی نہیں بتایا تھا بلکہ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ سمیت کئی مین اسٹریم لیڈروں نے بھی اس طرح کا اظہار خیال کیا ہے او رکہا ہے کہ وادی میں 1991کے جیسی صورتحال ہے کہ جب مرکز کے لئے وادی کی کسی بھی پارلیمانی نشست پر انتخاب کرانا ممکن نہ رہا تھا۔انتخابات کی تنسیخ کے مطالبے میں وزن ڈالتے ہوئے ریاستی سرکار کی طرفسے چیف سکریٹری اور ڈائریکٹر جنرل آف پولس نے الیکشن کمیشن کو یہ بھی بتایا تھا کہ پروگرام کے مطابق پولنگ ہونے کی وجہ سے جنوبی کشمیر میں جاری جنگجو مخالف کارروائیوں میں بھی رکاوٹ پڑ سکتی ہے۔