امریکہ کے نو منتخبہ صدر جو بائیڈن اپنے پیش رو ڈونالڈ ٹرمپ کے دیگر کئی فیصلوں کی تبدیلی کی طرح ہی فلسطینیوں کی مدد اور ٹرمپ انتظامیہ کے دورمیں بند کیے گئے فلسطینی سفارتی مشن کو جلد بحال کرنا چاہتے ہیں۔
امریکی سفیر کے مطابق بائیڈن کی پالیسی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع کے دو ریاستی حل کی حمایت پرمبنی ہے۔ موجودہ امریکی صدر اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے الگ الگ ریاستوں کےقیام کی حامی ہے۔ جہاں اسرائیل کے ساتھ فلسطینی بھی اپنی ایک آزاد ریاست میں جی سکیں۔
اُنہوں نے اشارہ کیا کہ واشنگٹن دوسرے ممالک سے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی تاکید کرتا رہے گا لیکن اس نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی فلسطین امن کا کوئی متبادل نہیں ہے۔دسمبر 2018 میں ، سابق امریکی انتظامیہ نے اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہ کرنے کا الزام عائد کرکے واشنگٹن میں فلسطینی مشن بند کردیئے تھے۔
واشنگٹن نے فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کی ذمہ دار اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی’اونروا’ کی 70 سال سے جاری امداد بھی بند کردی تھی۔
ٹرمپ کی طرف سے سنہ 2017 کے آخر میں امریکی سفارتخانے کی مشرقی یروشلم منتقل کرنے کے اعلان کے بعد ٹرمپ انتظامیہ اور فلسطینی اتھارٹی کے مابین تعلقات خراب ہوگئے تھے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کے بعد سابق امریکی انتظامیہ کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کے خلاف اقدامات کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ امریکا نے فلسطینی اتھارٹی کو دی جانے والی بیس لاکھ ڈالر کی امداد بھی روک دی تھی۔