سرینگر// اسوقت جب ریاست میں زچگی اور امراضِ خواتین کے سب سے بڑے اسپتال، لل دید،کی ایک ڈاکٹرنی کی وجہ سے پورا طبی شعبہ بدنام ہوا ہے خود وادی کے کئی بڑے ڈاکٹروں کا تذکرہ لازمی بنتا ہے کہ جو حقیقی معنوں میں مریضوں کیلئے کسی مسیحا سے کم نہیں ہیں۔ خود گورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی) کی پرنسپل پروفیسر سائمہ رشید ایک مثال ہیں کہ جو بطور پرنسپل کے سبھی بڑے اسپتالوں کی سربراہ ہونے کے باوجود نہ صرف خود مریضوں کا علاج کرتی ہیں بلکہ خاص بات یہ ہے کہ وہ اوقاتِ کار سے کئی گھنٹہ قبل صبح ساڑھے آٹھ بجے کام پر لگ گئی ہوتی ہیں۔
چناچہ لل دید اسپتال میں پیش آمدہ واقعہ کی جانب سے ابھی مجموعی طور پورا طبی شعبہ،باالخصوص ڈاکٹر ،طعن و تشنیع کا نشانہ بنے ہوئے ہیں تاہم بعض لوگ چشم دید واقعات اور ذاتی تجربہ کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ سبھی ڈاکٹروں کو ایک نظر سے دیکھنا انصاف کے تقاضوں کے عین مخالف ہے۔ واضح رہے کہ لل دید اسپتال میں گذشتہ دنوں ایک ڈاکٹرنی نے کپوارہ کے ایک دوردراز سے آئی ہوئی مریضہ کو زبردستی اسپتال سے نکالا یہاں تک کہ مذکورہ نے سرراہ بچے کو جنم دیا جسکی شدید سردی کی وجہ سے جلد ہی موت ہوگئی تھی۔اس واقعہ کے سامنے آنے کے بعد سے پوری وادی کے ساتھ ساتھ دور دور تک ڈاکٹروں کی باالخصوص اور پورے طبی شعبہ کی باالعموم تھو تھو ہورہی ہے۔ حالانکہ وادی کے بعض ڈاکٹروں کے دولت کے پجاری ہونے کی وجہ سے مریضوں کو لوٹنے یا بعض کے متکبر ہونے کی وجہ سے مریضوں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کرنے کے واقعات کم نہیں ہیں تاہم اسکے باوجود سبھی شعبوں کی ہی طرح طبی شعبہ میں بھی اچھے لوگوں کی کمی بھی نہیں ہے۔جیسا کہ غلام محمد نامی ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کہتے ہیں ”یہ سچ ہے کہ حالیہ واقعہ انتہائی غیر انسانی،ظالمانہ اور شرمناک ہے تاہم میرے خیال میں سبھی کو ایک پلڑے میں تولنا بھی ٹھیک نہیں ہے“۔انہوں نے کہا کہ وہ خود کئی ایسے واقعات کے گواہ ہیں کہ جن سے اس بات کی نفی ہوجاتی ہے کہ سبھی ڈاکٹر درندوں کے جیسے ہیں۔
”آپ کسی بھی اسپتال میں جائیں آپ کو دیگر شعبوں کی ہی طرح یہاں اچھے لوگ بھی ملیں گے اور کالی بھیڑیں بھی….کالی بھیڑیں اگر دیگر شعبوں کی پہچان نہیں ہیں تو ہماری پہچان کیسے ہوسکتی ہیں“۔
جی ایم سی کے سب سے اہم ،ایس ایم ایچ ایس،اسپتال کے آوٹ ڈور ڈیپارٹمنٹ (او پی ڈی)،جہاں نئے آنے والے مریضوں کا ملاحظہ کیا جاتا ہے،کا دورہ کرنے پر بھی حالیہ شرمناک واقعہ سے ڈاکٹروں کے متعلق پیدا شدہ مجموعی تاثر کی نفی ہوجاتی ہے۔صبح ساڑھے آٹھ بجے یہ نمائندہ یہاں پہنچا تو یہاں سناٹا چھایا ہوا تھا سوائے کمرہ نمبر 24کے کہ جسکے باہر مریضوں کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔کمرے میں کوئی جونئیر ڈاکٹر نہیں بلکہ جی ایم سی کی پرنسپل پروفیسر(ڈاکٹر)سائمہ رشید ،جو ایک معروف فزیشن بھی ہیں،بیٹھیں مریضوں کا علاج کررہی ہیں۔کمرے کے دروازے پر کھڑا محمد اکبر نامی ایک ملازم کے بقول پرنسپل صاحبہ شدید سردی کے باوجود بھی صبح ساڑھے آٹھ بجے آکر مریضوں کا علاج کرتی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ یہ ڈاکٹر صاحبہ کا معمول ہے۔
اسپتال کے میڈیکل ریکارڈ ڈیپارٹمنٹ میں ایک اہلکار نے بتایا کہ یہاںیومیہ ایک ہزار یا بعض اوقات اس سے بھی زیادہ مریضوں کو دیکھا جاتا ہے اور عام حالات میں او پی ڈی کا کام دس بجے کے آس پاس شروع ہوجاتا ہے تاہم ڈاکٹر سائمہ سرکاری اوقات کار سے قبل آتی ہیں۔ڈاکٹر صاحبہ سے ملنے کی منتظر ایک بزرگ مریضہ،مالہ،نے بتایا”میں تو انہی سے علاج کراتی آرہی ہوں،یہ نہ صرف ایک اچھی ڈاکٹر بلکہ ایک بہت شفیق انسان بھی ہیں“۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر سائمہ بہت صبر اور تفصیل سے مریض دیکھتی ہیں۔وہ کہتی ہیں”ہم نے سنا ہے کہ یہ ایک بڑی افسر بھی ہیں لیکن انسے ملنے پر کبھی ایسا نہیں لگتا ہے،وہ اچھے سے سنتی بھی ہیں اور سمجھاتی بھی ہیں“۔ڈلگیٹ سرینگر کے غلام قادر نامی ایک مریض نے بھی اسی طرح کے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا”یہ ایک مسیحا کی طرح ہیں،بہت اچھے سے دیکھتیں اور ایک حلیم انسان کی طرح ملتی ہیں،حالانکہ اکثر ڈاکٹر فقط پیسہ کمانا چاہتے ہیں لیکن یہ مختلف ہیں“۔اسپتال کے ایک ملازم نے بتایا کہ پرنسپل ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر سائمہ چونکہ سبھی بڑے اسپتالوں کی ناظمہ ہیں لہٰذا انہیں او پی ڈی میں بیٹھنے سے استثنیٰ حاصل ہے لیکن وہ اسکے باوجود بھی نہ صرف مریض دیکھتی ہیں بلکہ اپنے ماتحت ملازمین سے پہلے اسپتال آتی ہیں۔
اسی اسپتال کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں کئی ڈاکٹر ملے جنہوں نے کہا کہ یہاں کے ایک سی ایم او،ڈاکٹر سجاد،نہ صرف ایک اچھے منتظم بلکہ ایک مددگار انسان بھی ہیں۔جیسا کہ بڈگام کے ایک مریض کے تیمار دار نے بتایا”میں اپنی ماں کو لایا ہوں جو بہت بیمار ہیں تاہم مجھے کوئی اندازہ نہیں مل رہا تھا کہ میں کس سے ملوں اور کیا کروں،کسی نے مجھے سی ایم او صاحب سے ملنے کیلئے کہا ،جن کا نام ڈاکٹر سجاد ہے،میں انسے ملا تو انہوں نے نہ صرف میری مدد کی بلکہ خود اٹھ کر مجھے متعلقہ ڈاکٹر کے پاس لے گئے“۔
معتبر صحافی یوسف جمیل نے دو ایک روز قبل فیس بُک پر اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہا کہ انکا کسی ایمرجنسی کی وجہ سے ایس ایم ایچ ایس جانا ہوا تو کس طرح یہاں کے شعبہ ایمرجنسی کا عملہ نہایت پیشہ ورانہ اور مشفقانہ انداز میں پیش آیا جسکے لئے انہوں نے ان سبھی کی خوب تعریفیں کی تھیں۔
”ہم نے سنا ہے کہ یہ ایک بڑی افسر بھی ہیں لیکن انسے ملنے پر کبھی ایسا نہیں لگتا ہے،وہ اچھے سے سنتی بھی ہیں اور سمجھاتی بھی ہیں“۔
اسی اسپتال سے ملحق نفسیاتی امراض کے اسپتال میں ڈاکٹر ارشد دادا کے او پی ڈٰ کے باہر قطار میں لگے سینکڑوں مریضوں اور انکے تیمارداروں میں سے کئی ایک کے ساتھ بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ مذکورہ ڈاکٹر جمعرات کو صبح سے شام تک یہاں دستیاب رہکر نہ صرف سینکڑوں مریضوں کو دیکھتے ہیں بلکہ بہت حلیمی سے ملتے ہیں۔نسار احمد نامی ایک مریض نے بتایا”یہاں آنے والے چونکہ نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں ،ہمیں دوائی سے زیادہ تسلی اور شفقت سے آرام ملتا ہے اور میں آپ کو بتاسکتا ہوں کہ یہاں کے سبھی ڈاکٹر بڑے حلیم ہیں۔انہیں کئی بار کچھ بھی پوچھیئے وہ برا نہیں مانتے بلکہ اچھے سے سمجھاتے ہیں“۔
جی ایم سی کے حال ہی میں بنائے گئے اور تیزی سے ایک بڑے صحت مرکز کے بطور ابھر رہے سپر اسپیشلٹی اسپتال میں پتہ چلا کہ یہاں آنے والے مریض بھی بڑی حد تک ڈاکٹروں کے کام کاج سے مطمعن ہیں۔حالانکہ یہاں آنے والے کئی مریضوں نے اسپتال میں کئی سہولیات کے فقدان اور بعض ڈاکٹروں اور معاون شعبہ کے اہلکاروں کے چڑ چڑے مزاج کی شکایات بھی کیں لیکن پروفیسر(ڈاکٹر)شوکت کدلہ جیسے ”مسیحا“کی مثال بھی دی۔
ڈاکٹر کدلہ شعبہ گیسٹرو انٹرولوجی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں اور ایک درویش صفت و سادہ مزاج معالج بتائے جاتے ہیں۔جیسا کہ انسے علاج کرانے والے ایک مریض نے کہا”یہ تو درویش ہیں،صرف علاج ہی نہیں کرتے بلکہ لوگوں کی کافی مدد بھی کرتے ہیں“۔ڈاکٹر کدلہ کے ایک ماتحت ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ ڈیوٹی کے بڑے پابند ہیں اور مریضوں کی بڑی خدمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا”سر تو صبح سویرے آتے ہیں اور شام گئے تک ڈیپارٹمنٹ میں مصروف رہتے ہیں،انکے ساتھ کام کرنا بڑا سخت مانا جاتا ہے کیونکہ وہ شائد ہی کبھی کرسی پر بیٹھے دیکھے جاسکتے ہیں بلکہ پورا دن مزدور کی طرح کام پر لگے رہتے ہیں“۔
لل دید اسپتال میں پیش آمدہ واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے مذکورہ ڈاکٹر نے کہا”دیکھیں مجھے نہیں پتہ کہ اصل میں کیا ہوا ہے لیکن جو کچھ بھی ہوا بہت برا ہوا ہے اور اگر واقعی اس میں ڈاکٹر کا قصور ہے تو اسے سخت سزا ملنی چاہیئے لیکن سبھی ڈاکٹروں پر الزامات لگانا اور گالیاں دینا بھی صحیح نہیں ہے۔جیسا کہ میں نے آپکو اپنے شوکت صاحب یا دیگر کئی ڈاکٹروں کے بارے میں بتایا وہ آج بھی اپنے پیشے کو ایک عبادت کی طرح لئے ہوئے ہیں “۔انہوں نے کہا”آپ کسی بھی اسپتال میں جائیں آپ کو دیگر شعبوں کی ہی طرح یہاں اچھے لوگ بھی ملیں گے اور کالی بھیڑیں بھی….کالی بھیڑیں اگر دیگر شعبوں کی پہچان نہیں ہیں تو ہماری پہچان کیسے ہوسکتی ہیں“۔
کیا آپ نے یہ پڑھا ہے؟