سرینگر// آئی اے ایس افسر شاہ فیصل کے نوکری چھوڑ کر سیاست میں آنے کے اعلان کے بعد یہ معاملہ جموں کشمیر میں گرما گرم بحث و مباحثے کا موضوع بنا ہوا ہے۔حالانکہ شاہ فیصل کے نیشنل کانفرنس میں شامل ہونے کو تقریباََ طے بتایا جارہا ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ لوگوں کی جانب سے سوال اٹھائے جانے کے بعد شاہ فیصل اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے کسی بھی موجودہ پارٹی میں شامل ہونے کی بجائے ایک آزاد امیدوار کے بطور شمالی کشمیر سے لوک سبھا کا الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
2009بیچ کے آئی اے ایس ٹاپر شاہ فیصل نے مہینوں کی قیاس آرائی کے بعد گذشتہ روز نوکری چھوڑ کر باضابطہ طور سیاست میں آنے کا اعلان کیا تھا جسکے بعد سے یہ موضوع سیاسی پارٹیوں سے لیکر بازاروں تک اور گلی کوچوں سے لیکر سماجی رابطے کی ویب سائٹوں تک موضوع بحث بنا ہوا ہے اور لوگ اپنی آراءکا اظہار کررہے ہیں۔ حالانکہ بعض لوگ فیصل کے اس غیر معمولی اقدام کی تعریفیں کرتے ہوئے انکے سیاست میں آنے کو ایک بڑی اور ”خوشگوار“بات بتاتے ہیں تاہم بعض لوگ انہیں ایک ”موقعہ پرست“اور ”اقتدار کے رسیا“قرار دیتے ہوئے انکے نیشنل کانفرنس میں جانے کے امکان کیلئے انکی تنقید کررہے ہیں۔حالانکہ شاہ فیصل نے کہا ہے کہ وہ جمعہ کو ایک پریس کانفرنس کے دوران نوکری چھوڑ کر سیاست میں آنے کی وجوہات کی وضاحت کرینگے تاہم انہوں نے اتنا ضرور کیا ہے کہ انکا یہ فیصلہ کشمیریوں کے (فورسز کے ہاتھوں) مارے جانے اور مسئلہ کشمیر کے حل کی سمت میں نئی دلی کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدام نہ کئے جانے کے خلاف انکا احتجاج ہے۔
”اگر وہ واقعی کشمیریوں کے ساتھ ہورہے تشدد کے خلاف احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو پھر نیشنل کانفرنس انکی منزل کیسے ہوسکتی ہے،نیشنل کانفرنس نے کونسا ظلم نہیں کیا ہے بلکہ جہاں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ریاست کی دیگر جماعتوں کے مقابلے میں اسی پارٹی کا سب سے زیادہ منفی رول رہا ہے وہیں اس پارٹی نے ریاست پر سب سے زیادہ دیر تک حکومت کرنے کے باوجود کوئی احسان کرنے کی بجائے الٹا لوگوں کو مروایا ہی ہے“۔
فیصل کے اقدام پر بحث کرنے والوں کی اکثریت کا انسے سوال ہے کہ اگر وہ کشمیریوں پر ہورہے تشدد کے خلاف احتجاج ہی کرنا چاہتے ہیں تو پھر نیشنل کانفرنس انکی منزل کیسے ہوسکتی ہے کہ جسے کشمیری عوام ہوس اقتدار کی ماری ایک ”ظالم جماعت“کے بطور دیکھتے ہیں۔فیس بُک پر کئی لوگوں نے لکھا”اگر وہ واقعی کشمیریوں کے ساتھ ہورہے تشدد کے خلاف احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو پھر نیشنل کانفرنس انکی منزل کیسے ہوسکتی ہے،نیشنل کانفرنس نے کونسا ظلم نہیں کیا ہے بلکہ جہاں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ریاست کی دیگر جماعتوں کے مقابلے میں اسی پارٹی کا سب سے زیادہ منفی رول رہا ہے وہیں اس پارٹی نے ریاست پر سب سے زیادہ دیر تک حکومت کرنے کے باوجود کوئی احسان کرنے کی بجائے الٹا لوگوں کو مروایا ہی ہے“۔ایک اور شخص نے لکھا ہے”کیا شاہ فیصل کو معلوم نہیں ہے کہ عمر عبداللہ نے 2010میں اپنے دور اقتدار میں درجنوں بچوں سمیت سوا سو افراد کو مروایا اور دیگر سینکڑوں کو زخمی کروادیا،وہ ان جیسے لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملاکر کشمیریوں کی مسیحائی کا دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں“۔
خود شاہ فیصل نے سوشل میڈیا ہی کے ذرئعہ نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ واقعہ فیصل کوکسی خاص سمت میں جاتے دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں فیس بُک کی بجائے سامنے آنا چاہیئے بصورت دیگر وہ بعدازاں انسے یہ گلہ نہیں کرسکتے ہیں کہ انہوں نے فیصلہ لیتے وقت نوجوانوں سے نہیں پوچھا۔اس سلسلے میں انہوں نے نوجوانوں کو جمعہ کے روز سرینگر طلب کیا تھا تاہم بعدازاں انہوں نے فیس بُک پر ایک پوسٹ میں موسم کی ناسازی کو وجہ بتاتے ہوئے مشورے کی اس مجوزہ محفل کو غیر معینہ مدت تک کیلئے معطل کردیا۔
حالانکہ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے فیصل کے مستعفی ہونے کی خبر آتے ہی انکا خیرمقدم کرکے ان افواہوں کو تقویت پہنچائی تھی کہ آئی اے ایس ٹاپر نیشنل کانفرنس میں شامل ہونے جارہے ہیں تاہم آج عوامی اتحاد پارٹی کے صدر اور علیٰحدگی پسندوں کے جیسی سیاست کیلئے پہچان رکھنے والے سابق ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے ایک پریس کانفرنس میں انہیں اپنی طرف مدعو کیا۔انہوں نے کہا کہ فیصل کے سیاست میں آنے سے لوگوں کی توقعات بڑھ گئی ہیں لہٰذا انہیں کسی ایسی پارٹی میں شامل ہونے سے احتیاط بھرتنی چاہیئے کہ جسے لوگ اپنی پریشانیوں کی وجہ سمجھتے ہوں۔ حالانکہ انجینئر رشید نے نیشنل کانفرنس کا نام تو نہیں لیا تاہم انکا واضح اشارہ اسی پارٹی اور شاہ فیصل کے اس میں شامل ہونے کے امکان کی جانب تھا۔انجینئر رشید نے شاہ فیصل کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے اطلاق کی بات کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے یہ لائن اختیار کی تو انہیں ان سمیت سبھی ”ہم خیال طاقتوں“کی حمایت ملے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ فیصل اپنے اوپر دباو بڑھتے ہوئے محسوس کررہے ہیں اور چونکہ وہ نوکری چھوڑنے کی صورت میں پہلے ہی ایک بڑا قدم اٹھاچکے ہیں وہ اگلے اقدام نہایت احتیاط سے اٹھانا چاہتے ہیں۔ان ذرائع کا کہنا ہے کہ فیصل اب کسی موجودہ پارٹی میں شامل ہونے یا اپنی نئی جماعت بنانے سے بچتے ہوئے ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے لوک سبھا کا انتخاب لڑنے پر سوچ رہے ہیں جسکے بعد ہی وہ اپنی آئیندہ کی سیاست کی سمت کا تعین کرینگے۔
یہ بھی پڑھئیں