سرینگر// نامی سیاسی تجزیہ نگار اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ماہر کھلاڑی او پی شاہ کی جانب سے ”مشرف فارمولہ“پر غور کی تجویز سے ناراض ہوکر بزرگ راہنما سید علی شاہ گیلانی اور انکے دست راست و جانشین اشرف صحرائی نے مسٹر شاہ کو ہی نہیں بلکہ سابق پاکستانی صدر کے لئے بھی کھری کھری سنائی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ کشمیر مشرف کے باپ کی جاگیر نہیں ہے کہ جسکی وہ تقسیم کرےں۔ذرائع کے مطابق او پی شاہ کو انتہائی غیر متوقع صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں اپنا سا منھ لیکر سید گیلانی کے گھر سے نکلنا پڑا جہاں سید گیلانی اب قریب آٹھ سال سے نظربند ہیں۔
اندازہ لگایا جاتا ہے کہ حکومت ہند اس فارمولہ پر غور کرنے کو تیار تھی
ذرائع کا کہنا ہے کہ او پی شاہ نے کئی دن قبل سید گیلانی اور اشرف صحرائی سے ملاقات کیلئے وقت لیا ہوا تھا اور وہ پہلے سے طے پروگرام کے مطابق آج سید گیلانی کے گھر پہنچے جہاں انہوں قریب ایک گھنٹہ تک سید گیلانی اور انکے جانشین اشرف صحرائی،جو چند ماہ قبل گیلانی کی جگہ تحریکِ حریت کے صدر بنائے گئے ہیں،کے ساتھ ہمکلام رہے۔معلوم ہوا ہے کہ انکے مابین کشمیر کی موجودہ صورتحال اور مسئلہ¿ کشمیر کے متوقع حل کو لیکر گفتگو ہورہی تھی کہ اسی دوران او پی شاہ نے سابق پاکستانی صدر جنرل مشرف کی جانب سے مسئلہ¿ کشمیر کے ”حل“کیلئے تجویز کردہ چار نکاتی فارمولہ،جسے اب مشرف فارمولہ کے نام سے جانا جاتا ہے،کی بات چھیڑی اور دونوں لیڈروں کو اس فارمولہ پر سوچنے کی سلیقے سے ترغیب دینا چاہی۔بتایا جاتا ہے کہ اس بات پر سید گیلانی ناراض ہوگئے اور انہوں نے کسی بھی صورت میں اس نام نہاد فارمولہ کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہونے کی بات دہرائی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سید علی شاہ گیلانی نے کہا”یہ(مشرف )فارمولہ ہمارا فارمولہ نہیں ہے“۔
اشرف صحرائی نے تاہم سید گیلانی کے مقابلے میں زیادہ شدت کے ساتھ اس فارمولہ کو رد کیا اور ساتھ ہی خود او پی شاہ کے تئیں ہی نہیں بلکہ سابق پاکستانی صدر کے تئیں بھی زبردست ناراضگی کا اظہار کیا۔بتایا جاتا ہے کہ اشرف صحرائی نے کہا”کیا کشمیر مشرف کے باپ کی جاگیر ہے؟وہ ہوتا کون ہے ہمارا فیصلہ کرنے والا“۔صحرائی نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو 1947سے قبل تک کی جموں کشمیر کی سرحدوں کے اندر رہنے والے لوگوں کو رائے شماری کا موقعہ دیکر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔یاد رہے کہ اشرف صحرائی سید گیلانی کے دیرینہ ترین اور قریب ترین ساتھی ہیں جو بزرگ راہنما کی جگہ تحریک حریت کے صدر بنائے گئے ہیں اور سید گیلانی کے ”فطری جانشین“سمجھے جاتے ہیں۔صحرائی کے ”ہاٹ سیٹ“پر آںے کے چند ہی دن بعد انکے اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹے جنید صحرائی نے بندوق اٹھاکر حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ ابھی تک روپوش ہیں۔
انہوں نے مزاحمتی خیمے کے ایک دھڑے کو اس ”فارمولہ“کی قبولیت پر آمادہ بھی کرلیا تھا تاہم سید علی شاہ گیلانی نے اسے قبول کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ پرویز مشرف کی شدید الفاظ میں مذمت بھی کی
بتایا جاتا ہے کہ او پی شاہ نے دونوں لیڈروں کو اس حقیقت پر سوچنے کی ترغیب دی کہ جنوب ایشیائی خطے کے امن کا راستہ کشمیر سے ہوکر جاتا ہے تاہم اشرف صحرائی نے واضح کیا کہ کسی اور سے زیادہ انہیں کشمیر اور کشمیری لوگوں کی فکر ہے جو،بقولِ انکے،”ریاستی دہشت گردی‘ کا شکار ہوتے آرہے ہیں۔اشرف صحرائی نے یہ بھی کہا ہے کہ کشمیریوں کا مقصد ہندوستان کو ایک اسلامی ملک بنانے کا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے سیاسی حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔انہوں نے او پی شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے”آپ لوگ ہندوستان کو بھلے ہی ہندو راشٹر بنائیں لیکن جموں کشمیر کی سرحدوں سے باہر۔اگر آپ واقعہ امن چاہتے ہیں تو پھر اپنی حکومت کو مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ کریں،ہم آزاد ہوئے تو آپ دیکھیں گے کہ ہماری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہوگی“۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف نے اپنے دورِ اقتدار میں مسئلہ کشمیر کے ”حل“کے بطور ایک چار نکاتی فارمولہ دیا تھا جسکا لُبِ لُباب ایل او سی کے آر پار لوگوں کو آنے جانے کی اجازت دینا تھا ۔انہوں نے مزاحمتی خیمے کے ایک دھڑے کو اس ”فارمولہ“کی قبولیت پر آمادہ بھی کرلیا تھا تاہم سید علی شاہ گیلانی نے اسے قبول کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ پرویز مشرف کی شدید الفاظ میں مذمت بھی کی یہاں تک کہ مشرف نے ایک مرتبہ یہ تک کہا کہ ”بُڑھا پاگل ہوگیا ہے“ جبکہ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ انکے فارمولہ کو سید علی شاہ گیلانی نے ناکام بنادیا ۔اندازہ لگایا جاتا ہے کہ حکومت ہند اس فارمولہ پر غور کرنے کو تیار تھی۔