….اور حزب المجاہدین کا چوتھا ستون گر گیا!

سرینگر// سرکاری فورسز نے آج سرینگر کے مضافاتی علاقہ نوگام میں ایک چھاپہ مار کارروائی کے دوران اسکالر سے جنگجو بنے چار میں سے آخری حزب کمانڈر سبزار بشیر عرف سیف اللہ کو اپنے ایک ساتھی سمیت مارگرایا۔سبزار کے مارے جانے کو حزب المجاہدین کیلئے ایک بڑا دھچکہ تصور کیا جارہا ہے جبکہ سرکاری فورسز اسے ایک بہت بڑی کامیابی بتاتی ہیں۔

ذرائع کے مطابق سرکاری فورسز کو کل رات حزب کمانڈر سبزار اور انکے ایک ساتھی کے سرینگر کے مضافاتی علاقہ نوگام کے وانہ بل میں موجود ہونے کی اطلاع ملی تھی جسکی بنا پر فوج کی 55راشٹریہ رائفلز،جموں کشمیر پولس اور دیگر سرکاری فورسز نے یہاں کا محاصرہ کر لیا۔بتایا جاتا ہے کہ فورسز نے دوران شب اس مکان کی نشاندہی کی کہ جہاں حزب المجاہدین کے جنگجو ٹھہرے ہوئے تھے اور پھر اسکے آس پاس بارود بچھایا گیا۔ان ذرائع کے مطابق رات دو بجے فورسز نے جنگجووں پر دھاوا بولدیا جنہوں نے جواب میں شدید فائرنگ کی اور یوں یہاں ایک زبردست جھڑپ شروع ہوگئی جو صبح سات بجے تک جاری رہنے کے بعد دونوں جنگجووں کے مار گرائے جانے پر ختم ہوگئی حالانکہ فورسز نے قریب دوپہر تک علاقے کا محاصرہ جاری رکھا اور پھر دونوں جنگجووں،جنکی شناخت سبزار احمد صوفی ساکنہ سنگم بجبہاڑہ اور عاصف احمد گوجری ساکنہ کھرم بجبہاڑہ کے بطور ہوئی، کی نعشیں اٹھاکر چلی گئیں۔جب تک لوگوں کو اس جھڑپ کی خبر ہوئی فورسز نے اپنا کام مکمل کردیا تھا تاہم خبر پاتے ہی آس پڑوس کے لوگوں نے جمع ہوکر احتجاجی مظاہرے کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی علاقوں میں سرکاریفورسز اور مظاہرین کے مابین جھڑپیں ہونے لگیں۔بعدازاں جنگجووں کی شناخت معلوم ہونے پر انکے آبائی علاقوں میں ہزاروں لوگ جمع ہوئے اور وہاں بھی پر تشدد جھڑپیں شروع ہوئیں جن میں کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

سبزار احمد فقط ایک جنگجو کمانڈر ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے جنگجوئیت کے راستے جانے پر آمادہ مقامی نوجوانوں کیلئے ”آئیکن“بھی تھے۔وہ اسکالر سے جنگجو بننے والے حزب المجاہدین کے چار کمانڈروں میں سے ایک تھے اور تنظیم میں انکی اہم حیثیت تھی۔

سرینگر کی حدود میں ایک ہفتے کے دوران یہ اپنی نوعیت کی دوسری جھڑپ تھی۔اس سے قبل شہر کے پائین فتح کدل علاقہ میں فورسز نے معراج الدین بنگرو نامی لشکر طیبہ کے معروف کمانڈر کو اپنے ایک ساتھی سمیت جاں بحق کردیا تھا۔پولس کے ایک افسر نے کہا کہ دونوں ہی جھڑپیں فورسز کو انتہائی بڑی کامیابی دلا چکی ہیں کیونکہ جنگجووں کی جانب سے مسلسل سرینگر میں پیر جمانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ سبزار صوفی کا سرینگر میں مارا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ شہر میں اپنا نیٹورک بڑھانے کی کوشش میں رہے ہیں تاہم انہیں مار گراکر ناکام بنایا گیا۔

سبزار احمد فقط ایک جنگجو کمانڈر ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے جنگجوئیت کے راستے جانے پر آمادہ مقامی نوجوانوں کیلئے ”آئیکن“بھی تھے۔وہ اسکالر سے جنگجو بننے والے حزب المجاہدین کے چار کمانڈروں میں سے ایک تھے اور تنظیم میں انکی اہم حیثیت تھی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جہاں گذشتہ دو ایک سال سے سینکڑوں مقامی نوجوان جنگجووں کی صفوں میں شامل ہوئے ہیں وہیں ان میں کم از کم چار ایسے تھے کہ جنہوں نے پی ایچ ڈی تک کی ڈگریاں حاصل کی تھیں یا پھر اس اعلیٰ ڈگری کیلئے منتخب ہوچکے تھے۔ان میں سے فورسز کے ہتھے چڑھنے والے سب سے پہلے شمالی کشمیر کے اظہرالدین خان تھے کہ جو عربی زبان میں پی ایچ ڈی کیلئے منتخب ہوچکے تھے کہ جنگجو بن گئے۔انہوں نے ۱پریل2016میں حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کی تھی اور سال بھر بعد گذشتہ فروری میں فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔انکے بعد 7مئی کو فورسز نے کشمیر یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رفیع بٹ کو حزب المجاہدین میں شامل ہونے کے فقط تین دن بعد جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع میں مار گرایا۔علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری ادھوری چھوڑ کر سنسنی خیز انداز میں حزب المجاہدین میں شامل ہونے والے ڈاکٹر منان وانی کو فورسز نے رواں ماہ کی 12تاریخ کو شمالی کشمیر میں اپنے آبائی ضلع کپوارہ کے لنگیٹ علاقہ میں مار گرایا اور آج سبزار صوفی کی باری آئی۔

جنگجو بننے سے قبل سبزار بشیر صوفی جامع ملیہ اسلامیہ میں باٹونی کے شعبہ میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔اس سے قبل انہوں نے ایم ایس سی،ایم فل اور دیگر کئی ڈگریاں لینے کے علاوہ کئی مسابقتی امتحانات پاس کررکھے تھے اور وہ پی ایچ ڈی کے ساتھ ساتھ آئی اے ایس امتحان کیلئے بھی تیاری کررہے تھے جس میں انکی کامیابی تقریباََ طے تھی۔وہ تب چھٹی پر گھر آئے تھے کہ جب حزب المجاہدین کے معروف کمانڈر برہان وانی جولائی2016میں مارے گئے اور پھر پوری وادی میں ایک احتجاجی تحریک شروع ہوگئی تھی۔چناچہ سبزار اسی دوران اچانک گھر سے غائب ہوگئے اور پھر انکے حزب المجاہدین میں شامل ہونے کا راز کھلا اور تب سے وہ تنظیم میں ایک اہم حیثیت رکھتے تھے۔

جنگجو بننے سے قبل سبزار بشیر صوفی جامع ملیہ اسلامیہ میں باٹونی کے شعبہ میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔اس سے قبل انہوں نے ایم ایس سی،ایم فل اور دیگر کئی ڈگریاں لینے کے علاوہ کئی مسابقتی امتحانات پاس کررکھے تھے اور وہ پی ایچ ڈی کے ساتھ ساتھ آئی اے ایس امتحان کیلئے بھی تیاری کررہے تھے جس میں انکی کامیابی تقریباََ طے تھی۔

سبزار اور انکے ساتھی کے مارے جانے کی خبر آنے کے ساتھ ہی پوری وادی میں بے چینی کی لہر سی دوڑ گئی اور بیشتر علاقوں میں آناََ فاناََ ہڑتال ہوگئی۔حالانکہ سرکاری انتظامیہ نے جھڑپ شروع ہوتے ہی وادی میں انٹرنیٹ کی سروس بند کرادی تھی تاہم اسکے باوجود خبر پھیلنے کے ساتھ ہی دونوں جنگجووں کے آبائی علاقوں میں ہزاروں لوگوں کا سیلاب جمع ہوگیا جنہوں نے کئی کئی بار انکی نماز جنازہ پڑھی ۔سبزار بشیر کے جلوس جنازہ میں حزب المجاہدین کے مشہور کمانڈر زینت الاسلام نے کم از کم اپنے پانچ ساتھیوں سمیت شرکت کی اور اپنے ساتھی کو فوجی طرز کی سلامی دینے کیلئے ہوا میں کئی گولیاں چلائیں۔

یہ بھی پڑھیئے!

فلسفی کمانڈر منان وانی کی کہانی کا اختتام …!

Exit mobile version