سرینگر// نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ کی جانب سے نئی دلی میں منعقدہ ایک حالیہ تقریب کے دوران بھارت ماتا کی جئے اور جئے ہند کی نعرہ بازی کرنے کے ہفتہ بھر بعد پی ڈی پی کی ایک خاتون لیڈر،نعیمہ احمد مہجور، نے کہا ہے کہ ہمارا مذہب (اسلام) معصوموں کا قتل اور معاشرے کو تباہ کرنا سکھاتا ہے لہٰذا اسکولوں میں مذہبی تعلیم نہیں دی جانی چاہیئے۔
بھارت کے دوسرے صدر ایس رادھا کرشنن کے یومِ پیدائش 5 ستمبر کو ہر سال منائے جانے والے یومِ اساتذہ کے حوالے سے ٹویٹر پر اساتذب کے نام ایک پیغام میں نعیمہ احمد مہجور نے یہ متنازعہ بیان دیا ہے جسکے لئے سوشل میڈیا پر انکی شدید تنقید کی جارہی ہے حالانکہ مین اسٹریم میڈیا نے معنیٰ خیز انداز میں اس بیان کو نظرانداز کردیا ہے۔ نعیمہ احمد مہجور نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے ”ہیلو اساتذہ، میں آپ کی عزت کرتی ہوں لیکن مہربانی کرکے مجھے اسکولوں میں اب مذہب نہ سکھائیں،ہمیں فقط سائنس اور ریاضی پڑھائیں …. یہ ہمارا مذہب معصوموں کو قتل کرواتا ہے اور ہمارے معاشرہ کو تباہ کرتا ہے“۔ انہوں نے لکھا ہے کہ فقط اساتذہ ہی (اسکولوں میں اسلام نہ پڑھا کر) نفرت کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں۔ دلچسپ ہے کہ جموں کشمیر کے سرکاری اور بیشتر نجی اسکولوں میں اسلامی تعلیم نہیں دی جاتی ہے جبکہ دینی مدارس میں یوم اساتذہ منانے کا رواج نہیں ہے۔
”ہیلو اساتذہ، میں آپ کی عزت کرتی ہوں لیکن مہربانی کرکے مجھے اسکولوں میں اب مذہب نہ سکھائیں،ہمیں فقط سائنس اور ریاضی پڑھائیں ۔۔۔۔ یہ ہمارا مذہب معصوموں کو قتل کرواتا ہے اور ہمارے معاشرہ کو تباہ کرتا ہے“۔
ایک ڈرامہ اداکار کے بطور جانی جاتی رہیں نعیمہ احمد بی بی سی کی ملازم ہوکر ایک معروف صحافی کے بطور پہچانی جاتی تھیں۔ 2010 میں انہوں نے سوشل میڈیا پر کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو لیکر آنسو بہاکر لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا چاہی تھی یہاں تک کہ عمر عبداللہ کی سرکار نے انکے خلاف ایف آئی آر بھی درج کروائی جسے نعیمہ کے معافی مانگنے پر واپس لیا گیا تھا۔ بعدازاں انہوں نے مفتی سعید کی پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کی۔ انہیں پارٹی میں کوئی خاص رول نبھاتے تو نہیں دیکھا گیا ہے تاہم انہیں وومنز کمشن کی چیرپرسن کی نوکری دی گئی تھی جس سے انہیں محبوبہ مفتی کی سرکار گرنے پر استعفیٰ دینا پڑا ہے۔
حالانکہ نعیمہ نے کسی مذبب کا نام نہیں لیا ہے تاہم وہ ظاہری طور مسلمان ہیں اور انہوں نے ٹویٹ میں ”ہمارا مذہب“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ دلچسپ ہے کہ اُنکا یہ بیان نیشنل کانفرنس کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ فاروق عبداللہ کی حالیہ متنازعہ نعرہ بازی، جو انہوں نے نئی دلی میں منعقدہ ایک تقریب میں کی تھی، چند ہی دنوں کے بعد سامنے آیا تھا۔ فاروق عبداللہ نے چِلا چِلا کر ”بھارت ماتا کی جئے“ اور ”جئے ہند“ کے نعرے لگائے تھے جن پر کشمیریوں کے علاوہ خود بھارت کی دیگر ریاستوں کے مسلمانوں کو بھی اعتراض ہے کہ ان نعروں کو کلمہ کفر مانا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا اندازہ ہے کہ چونکہ ریاست میں ابھی گورنر راج ہے اور نیشنل کانفرنس لے صدر نے متنازعہ نعرہ بازی کرکے خود کو ہندوتو طاقتوں کے قریب کرنے کی کوشش کی ہے لہٰذا ممکن ہے کہ پی ڈی پی نے نعیمہ کے ذرئعہ اسلام مخالف بیان دلواکر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ بھاجپا کے ہاتھوں انتہائی درجے تک ذلیل ہونے کے باوجود یہ پارٹی بھی کوئی مسلمان حامی پارٹی نہیں بلکہ ایک ایسی پارٹی ہے کہ جس پر آر ایس ایس جیسی شدت پسند جماعتیں بھروسہ کرسکتی ہیں۔
”ہیلو نعیمہ مہجور،میں آپ کی عزت نہیں کرتا ہوں لیکن مہربانی کرکے اس طرح کی گند سوشل میڈیا پر نہ پھیلائیں“۔
مین اسٹریم میڈیا میں نعیمہ مہجور کے اس متنازعہ بیان پر کوئی خبر بنتے دیکھنا باقی ہے تاہم سوشل میڈیا پر انکا ٹویٹ وائرل ہوچکا ہے اور انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔لوگ سوال کررہے ہیں کہ آخر نعیمہ مہجور کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اسلام کو معصوموں کے قتل اور دہشت گردی کیلئے ذًہ دار ٹھہرائیں۔ سینکڑوں لوگوں نے انہیں توہینِ رسالت کے گناہ کی مرتکب بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے صلواتیں سنائی ہیں جبکہ فیس بُک پر ایک شخص نے نعیمہ کے ٹویٹ کے الفاظ میں تھوڑا ہیر پھیر کرتے ہوئے انہی کے انداز میں انکے لئے یہ پیغام لکھا ہے ”ہیلو نعیمہ مہجور،میں آپ کی عزت نہیں کرتا ہوں لیکن مہربانی کرکے اس طرح کی گند سوشل میڈیا پر نہ پھیلائیں“۔
حالانکہ نہ نعیمہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ یہ بیان کسی پی ڈی پی ”لیڈر“ کی حیثیت سے دے رہی ہیں اور نہ ہی ابھی تک انکے اس متنازعہ بیان کو لیکر پی ڈی پی نے کوئی صفائی ہی دی ہے۔ پارٹی ترجمان کے ساتھ تفصیلات کے رابطے کی کوششیں کامیاب نہ ہونے کی وجہ سے اسکا موقف جاننا باقی ہے۔
یہ بھی پڑھئیں