سرینگر// بھارتیہ جنتا پارٹی (بھاجپا) کے جنرل سکریٹری اور کشمیر امور کے انچارج رام مادھو وادی کے دورے پر ہیں اور انہیں حکومت سازی کی کوششوں میں سرگرم بتایا جارہا ہے۔رام مادھو نے آج یہاں پارٹی کے سابق وزراءکے ساتھی طویل میٹنگ کی جسکے دوران گورنر راج سے گذررہی اس ریاست میں حکومت بنانے کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کے مطابق میٹنگ میں محسوس کیا گیا کہ” رےاست مےں تعمےر و ترقی کے لئے نئی حکومت کی تشکےل ناگزےر عمل ہے“۔ذرائع کی مانیں تو بھاجپا نے تاہم ایک بار پھر پی ڈی پی کے ساتھ جانے کے کسی بھی امکان کو رد کردیا ہے جیسا کہ حالیہ دنوں میں بعض میڈیا رپورٹوں سے تاثر ملا تھا۔
ذرائع کے مطابق رام مادھو نے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی رہائش گاہ ،واقع گپکار روڑ،کے متصل بی جے پی-پی ڈی پی سرکار میں نائبِ وزیر اعلیٰ رہے کویندر گپتا کی رہائش گاہ پر پارٹی کے سینئر لیڈروں اور سابق وزراءکے ساتھ دو گھنٹہ طویل میٹنگ کی جس میں ” حکومت سازی کو منطقی انجام تک پہنچانے“ کیلئے تفصیلی گفت شنید کی گئی۔ان ذرائع کے مطابق میٹنگ میں حکومت کی تشکیلِ نو سے متعلق مختلف پہلوﺅں پر غو روخوض کیا گیا تاہم طے پایا گیاکہ ”پی ڈی پی کے ساتھ حکومت بنا نے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا ہے“۔بتایا جاتا ہے کہ میٹنگ میں یہ بات بھی طے پائی کہ اگلے دنوں پارٹی کے ریاستی لیڈروں کو دلی بلایا جائے گا جہاں وہ ہائی کمانڈ کے ساتھ مزید مشورہ کریں گے۔
میٹنگ کے دوران یہ بات بھی زیرِ غور آئی کہ ریاست میں تعمیر و ترقی کے لئے نئی حکومت کی تشکیل ناگزیر عمل ہے کہ ابھی ریاستی اسمبلی کے انتخابات کو 2سال سے زیادہ وقت باقی ہے
ایک مقامی خبرساں ایجنسی کے این ایس نے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ میٹنگ کے دوران یہ بات بھی زیرِ غور آئی کہ ریاست میں تعمیر و ترقی کے لئے نئی حکومت کی تشکیل ناگزیر عمل ہے کہ ابھی ریاستی اسمبلی کے انتخابات کو 2سال سے زیادہ وقت باقی ہے ۔ ایجنسی کے مطابق بھاجپا کی اس میٹنگ میں بتایا گیا کہ ریاست میں دہائیوں سے ”خاندانی راج“قائم رہا ہے اور سابق سرکار میں،جسکی بھاجپا دوسری بڑی شریک تھی،رشوتستانی کا بول بالا رہا جبکہ تعمیرو ترقی کا کوئی نمایاں کام نہیں ہوا لہٰذا اگر عوام کو ایک ”نیا پلیٹ فارم“ مہیا کیا جائے تو جموں کشمیر میں ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے ۔معلوم ہوا ہے کہ میٹنگ کے اختتام پررام ما دھو سیدھا پیپلز کانفرنس کے چیر مین اور سابق وزیر سجاد غنی لون کی رہائش گاہ پر پہنچے اور یہاں حکومت سازی کے حوالے سے اہم گفت و شنید ہو ئی۔
بھاجپا نے تاہم ایک بار پھر پی ڈی پی کے ساتھ جانے کے کسی بھی امکان کو رد کردیا ہے جیسا کہ حالیہ دنوں میں بعض میڈیا رپورٹوں سے تاثر ملا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ بھاجپا نے پی ڈی پی سے 14جون کو اچانک اور غیر متوقع طور حمایت واپس لیکر محبوبہ مفتی کی سرکار گرادی تھی اور پھر 19جون کو ریاست میں گورنر راج نافذ ہوا تھا۔تاہم گورنر نے اسمبلی کو تحلیل کرنے کی بجائے اسے معطل کئے رکھا ہے اور حکومت گرنے کے روز اول سے ہی یہ افواہیں اور قیاس آرائیاں گشت میں ہیں کہ بھاجپا پی ڈی پی اور دیگر پارٹیوں سے ممبران توڑ کر پھر سے حکومت بنانے کی تاک میں ہے۔حالیہ دنوں میں یہ رپورٹیں بھی سامنے آئی تھیں کہ بھاجپا اور پی ڈی پی ”کچھ تبدیلیوں کے ساتھ“سابق سرکار کو پھر بحال کرنے کے حوالے سے درپردہ مذاکرات میں مصروف ہیں۔ان قیاس آرائیوں کو پی ڈی پی کی جانب سے راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیرمین کے انتخاب سے الگ رہکر ”سلیقے سے“بھاجپا کی حمایت کرنے سے تقویت پہنچی تھی تاہم جمعرات کو راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیرمین کا انتخاب جیتنے کے فوری بعد بھاجپا نے ایک بار پھر پی ڈی پی کو رد ی قرار دیا۔
انہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو