آصفہ کیس سے جُڑے طالب کی پُراسرارگرفتاری!

جموں// سال رواں کے اوائل میں جموں کے کٹھوعہ ضلع میںایک معصوم بچی کے اغوا،عصمت دری اور قتل کے معاملے میں ایک عجیب موڈ آیا ہے۔پولس نے گوجر طبقہ کے ان وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن کو گرفتار کیا ہے کہ جنہوں نے اپنے طبقے کی آٹھ سالہ بچی کے انصاف کیلئے زوردار مہم چلائی تھی۔طالب حسین نامی ان شخص پر خود اپنی ہی ایک رشتہ دار خاتون نے عزت ریزی اور پھر چُپ رہنے کیلئے قتل کی دھمکی دینے کا الزام لگایا ہے۔

پولس نے طالب حسین کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکے خلاف باضابطہ ایف آئی آر، نمبر 221/2018 ،زیردفعہ 376آرپی سی(رنبیر پینل کوڈ) اور4/15A آرمز ایکٹ معاملہ، درج کیاگیاہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ طالب حسین کی ایک رشتہ دار خاتون نے الزام لگایا ہے کہ حسین نے قریب ڈیڑھ ماہ قبل ان پر تب ایک جنگل میں حملہ کردیا تھا کہ جب وہ اپنی مویشیوں کو چرانے کیلئے جنگل میں تھیں۔ایف آئی آر میں درج ہے کہ متاثرہ نے بتایاہے کہ طالب کی ا س سے جنگل میں ملاقات ہوئی جہاں اس نے ہاتھ میں تیزدھارہتھیارہاتھ میں لے کراس کی عزت لوٹنے کی کوشش کی اوراس کے جسم کوچھوا،بعدمیں موقع سے فرارہوگئے۔

طالب حسین کی گرفتاری کہیں نہ کہیں معصوم بچی کے عدالت میں زیر شنوائی معاملے کو بھی متاثر کر سکتی ہے کہ شورشرابا کے تھم جانے کے بعد وہی ہیں کہ جو دیگر چند کارکنوں کے ساتھ اس معاملے میں حصول انصاف کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایس ایچ او پولیس سٹیشن سانبہ چنچل سنگھ نے طالب کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے مبینہ ملزم کو جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے علاقہ ترال سے گرفتارکیاہے۔طالب حسین خود بھی گوجر ہیں اور وہ تعلیم سے وکیل ہیں جبکہ وہ اپنے طبقے کے حقوق اور دیگر معاملات کیلئے سرگرم ہیں۔ معصوم بچی کے اغوا،عصمت دری اور قتل کی تحقیقات کروانے میں انہوں نے ایک غیر مسلم خاتون وکیل کے ساتھ مل کر سرگرم رول نبھایا تھا جسکے لئے انہیں پولس نے گرفتار بھی کر لیا تھا تاہم انکی گرفتاری پر ریاستی اسمبلی میں زبردست ہنگامہ ہونے پر بعدازاں انہیں رہا کردیا گیا تھا۔این ڈٰ ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران طالب حسین نے ان پر دباو¿ کئے جانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں دباو¿ میں لاکر معصوم بچی کیلئے انصاف مانگنے سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔طالب پر ایک بار جان لیوا حملہ بھی ہوا تھا اور انہوں نے الزام لگایا تھا کہ یہ بھی انہیں ڈرانے کیلئے کیا گیا تھاتاکہ وہ معصوم بچی کیلئے انصاف کی جنگ نہ لڑیں۔

کٹھوعہ کے رسانہ گاوں میں امسال جنوری میں ایک آٹھ سالہ بچی کا اگوا ہوا تھا جسکے بعد انکی انتہائی حد تک پامال لاش کو نزدیکی جنگل سے بر آمد کیا گیا تھا۔تحقیقات کے دوران یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا تھا کہ معصوم کو بے ہوشی کی دوا کھلا کھلا کر انہیں کئی دنوں تک درندگی کا شکار بنایا گیا تھا۔اس معاملے کو دبانے کیلئے سابق سرکار کے دو وزراءنے پولس پر دباو بنانے کی کوشش کی تھی یہاں تک کہ سخت عوامی دباو کے تحت سابق سرکار کے دو وزراءکو مستعفی ہونا پڑا تھا جن میں سے ایک،لال سنگھ،نے ابھی بھی اس معاملے کی سی بی آئی کے ذرئعہ تحقیقات کرائے جانے کا مطالبہ جاری رکھا ہوا ہے اور وہ ابھی تک کئی متنازعہ ریلیاں نکال چکے ہیں۔

”حد یہ ہے کہ انکے سسرال والوں تک کو استعمال کیا گیا جنہوں نے طالب کے خلاف پولس میں شکایت بھی درج کی لیکن اب کے جو الزام لگایا گیا ہے وہ بہر حال زیادہ پریشان کن ہے البتہ ہمیں یقین ہے کہ سچائی چھپ نہیں سکے گی“۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ طالب حسین کی گرفتاری کہیں نہ کہیں معصوم بچی کے عدالت میں زیر شنوائی معاملے کو بھی متاثر کر سکتی ہے کہ شورشرابا کے تھم جانے کے بعد وہی ہیں کہ جو دیگر چند کارکنوں کے ساتھ اس معاملے میں حصول انصاف کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ معصوم بچی کے ساتھ ہوئی درندگی کے بدنام زمانہ ،متنازعہ اور ”ہائی پروفائل“معاملے کی پٹھانکوٹ کی ایک عدالت میں یومیہ بنیادوں پر شنوائی جاری ہے۔

طالب حسین کے بعض ساتھیوں نے ،انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر،بتایا کہ ان کے خلاف درج ایف آئی آر انہیں دباو میں لائے جانے کی پہلے سے جاری کوششوں کا ہی ایک حصہ ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ طالب کے خلاف اس سے قبل بھی کئی معاملات درج کئے جاچکے ہیں لیکن چونکہ انہوں نے کبھی کچھ غلط نہیں کیا ہے لہٰذا انہیں پابند سلاسل نہیں کیا جاسکا ۔انکے ایک جاننے والے نے کہا”حد یہ ہے کہ انکے سسرال والوں تک کو استعمال کیا گیا جنہوں نے طالب کے خلاف پولس میں شکایت بھی درج کی لیکن اب کے جو الزام لگایا گیا ہے وہ بہر حال زیادہ پریشان کن ہے البتہ ہمیں یقین ہے کہ سچائی چھپ نہیں سکے گی“۔

کیا آپکو معلوم ہے؟

کٹھوعہ میں کمسن بچی کی عزت ریزی اور قتل

Exit mobile version