سرینگر// بی جے کی جانب سے محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کی حمایت واپس لیکر انکی حکومت کو اچانک گرادینے کے اگلے روز آج ریاست میں گورنر راج نافذ ہوگیا ۔گورنر این این ووہرا نے باضابطہ حکومت کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیا ہے ۔یہ لگاتار چوتھی مرتبہ ہے کہ جب این این ووہرا براہ راست ریاستی حکومت کی باگ ڈور سنبھال رہے ہیں جبکہ مجموعی طور گذشتہ چالیس سال کے دوران یہ آٹھویں مرتبہ ہے کہ جب ریاست میں گورنر راج نافذ ہوا۔
5 مئی 1936 کو جنمے گورنر موصوف 1959 کے پنجاب کیڈر کے سابق آئی پی ایس افسر نریندر ناتھ ووہرا مسٹر ووہراریاست کے بارہویں اورسابق گورنر جگموہن کے بعد پہلے سویلین گورنر ہیں ۔انہیں سال 2008میں گورنر بنایا گیا تھا جسکے بعد انکی مدت کار میں توسیع کی گئی۔ اس دوران انہیں چار بار براہ راست حکومت سنبھالنے کو کہا گیا۔
قابلِ ذکر ہے کہ عوامی موڈ کو دیکھتے ہوئے ابھی ابھی گئی سرکار نہ پنچایتی الیکشن کراسکی ہے اور نہ ہی محبوبہ مفتی کے وزیرِ اعلیٰ بننے پر جنوبی کشمیر میں خالی ہوچکی پارلیمانی نشست پر ہی چناو کراسکی ہے۔
”قطبین کا ملاپ“اور”تاریخی اتحاد“بتائے جاتے رہے بی جے پی-پی ڈی پی گٹھ جوڑ کے منگل کو اچانک ہی ٹوٹ جانے کے بعد ریاست میں دوسرے کسی اتحاد کی سرکار بنانا تقریباََ نا ممکن ہے اور اسی لئے مرکزی سرکار نے ریاست میں فوری طور گورنر راج نافذ کروادیا ہے۔چناچہ ووہرا نے فوری طور زمام اقتدار سنبھالی اور انہوں نے آج سیول سکریٹریٹ آکر سرکاری حکام کے ساتھ میٹنگ کی جسکے دوران انہیں مختلف قسم کی ہدایات دی گئیں۔گورنر نے اپنے لئے دو مشیر مقرر کئے ہیں جنکے بارے میں اندازہ ہے کہ انہیں کابینی درجہ کے وزراءکے برابر اختیارات دئے جائیں گے۔
سیکورٹی لحاظ سے حساس مانی جانے والی ریاست جموں وکشمیر میں گذشتہ قریب چار دہائیوں میں یہ آٹھویں مرتبہ ہے کہ جب یہاں گورنر راج نافذ کیا گیا ۔ ریاست میں پہلی مرتبہ 6 مارچ 1977 ءکو اُس وقت گورنر راج نافذ ہوا جب کانگریس نے شیخ عبداللہ کی قیادت والی نیشنل کانفرنس سے اپنی حمایت واپس لی۔ یہ گورنر راج 26 مارچ 1977 ءسے 9 جولائی 1977 ءتک 105کیلئے جاری رہا۔دوسری مرتبہ 6 مارچ 1986 ءکو اُس وقت گورنر راج نافذ ہوا جب اُس وقت کی حکومت اسمبلی کے ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ تب گورنر راج 7 نومبر 1986 ءتک 246 دنوں تک جاری رہا۔ جموں کشمیر میں علیٰحدگی پسند تحریک کے مسلح ہونے پرتیسری مرتبہ 19 جنوری 1990 ءسے 9 اکتوبر 1996 ءتک 6 برس اور 264 دنوں کے طویل عرصے تک گورنر راج نافذ رہا۔ چوتھی مرتبہ ، کسی جماعت کو اسمبلی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے،18 اکتوبر 2002 ءسے 2 نومبر 2002 ءتک 15 روز تک جاری رہاکیونکہ پی ڈی پی اور کانگریس نے محض 15 روز بعد مخلوط حکومت تشکیل دی تھی۔بعدازاں پی ڈی پی نے کانگریس سے حمایت واپس لی تو ریاست میں پانچویں مرتبہ 11 جولائی 2008 ءسے 5 جنوری 2009 ءتک 178 دنوں تک گورنر راج جاری رہا۔
جموں کشمیر میں علیٰحدگی پسند تحریک کے مسلح ہونے پرتیسری مرتبہ 19 جنوری 1990 ءسے 9 اکتوبر 1996 ءتک 6 برس اور 264 دنوں کے طویل عرصے تک گورنر راج نافذ رہا۔
گذشتہ اسمبلی انتخابات میں کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہ ہوپانے کی وجہ سے حکومت کا بننا محال ہوگیا تھا اور یوں 9 جنوری 2015 ءسے یکم مارچ 2015 ءتک 51 روزکیلئے چھٹی مرتبہ گورنر راج جاری رہا۔بعدازاں مفتی سعید نے بی جے پی کے ساتھ ”قطبین کا ملاپ“کیا اور حکومت بنائی۔یہ پہلی بار تھا کہ جب بھاجپا کیلئے جموں کشمیر کی سرکار میں شامل ہونا ممکن ہو پارہا تھا۔بعدازاں مفتی سعید فوت ہوئے تو محبوبہ مفتی نے فوری طور حکومت سنبھالنے سے انکار کیا اور یوں ساتویں مرتبہ 8 جنوری 2016 ءسے 4 اپریل 2016 ءتک87 دنوں کیلئے گورنر نافذ رہاجو محبوبہ مفتی کے حکومت سنبھالنے پر ختم ہوگیا۔اب جبکہ محبوبہ مفتی کی حکومت کو گرادیا گیا ہے ریاست میں آٹھویں مرتبہ گورنر راج نافذ ہوا ہے جو ،مبصرین کے مطابق،کئی مہینوں یا سالوں کیلئے جاری رہ سکتا ہے کیونکہ ریاست کے حالات کشیدہ ہیں اور الیکشن کا ماحول بننا محال نظر آرہا ہے۔قابلِ ذکر ہے کہ عوامی موڈ کو دیکھتے ہوئے ابھی ابھی گئی سرکار نہ پنچایتی الیکشن کراسکی ہے اور نہ ہی محبوبہ مفتی کے وزیرِ اعلیٰ بننے پر جنوبی کشمیر میں خالی ہوچکی پارلیمانی نشست پر ہی چناو کراسکی ہے۔
اس دوران اندازہ ہے کہ جلد ہی شروع ہونے جارہی سالانہ امرناتھ یاترا کے اختتام کے فوری بعد بی جے پی ریاست کیلئے گورنر تبدیل کرسکتی ہے جسکے لئے ایک سابق فوجی جنرل کا نام لیا جارہا ہے جو کشمیریوں کے تئیں شدید نفرت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئیں