سرینگر// جنوبی کشمیر میں اپنی نوعیت کے واقعہ میں جنگجووں نے ایک نجی گاڑی میں سفر کرنے والے ایک فوجی جوان کو اغواکرلیا ہے جبکہ یہاں سی آر پی ایف کے ایک اہلکار پر پتھر سے حملہ کرکے دو نامعلوم افراد نے انکی سروس رائفل چھین لی ہے۔فوجی اہلکار کے اغواکا واقعہ جنگجوئیت کا گڈھ مانے جارہے شوپیاں ضلع کا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ اہلکار ،جن کی شناخت اورنگزیب خان کے بطور ہوئی ہے،کوشادی مرگ میں اپنے کیمپ کے قریب اپنے ساتھیوں نے یہاں سے گذررہے ایک سرکاری ملازم،فاروق احمد،کی گاڑی میں بٹھایا تھا اور ڈرائیور سے انہیں شوپیاں میں اتارنے کی ہدایت کی گئی تھی۔تاہم جونہی یہ گاڑی کلم پورہ نامی گاوں کے نزدیک پہنچی ، مسلح جنگجوﺅں نے اسے روکا اور فوجی اہلکار کو نیچے اُتار کر اپنے ساتھ لئے گئے ۔فاروق احمد نے فوری طور نزدیکی تھانہ میں اس واقعہ کا احوال سنایا اور بتایا کہ کس طرح بندوق برداروں نے پہلے انکی پٹائی کی اور پھر فوجی اہلکار کو اپنے ساتھ لے لیا۔ذرائع کے مطابق اورنگزیب فوج کے ایک افسرمیجر شکلا ،جو اس علاقے میں تعینات ہیں اور حزب المجاہدین کے کمانڈر سمیر ٹائیگر کو مارنے والے آپریشن کے کمانڈر تھے،کے ذاتی محافظ ہیں۔یاد رہے کہ میجر شکلا اور سمیر ٹائیگر مدت تک چوہے بلی کا کھیل کھیلتے رہے جسکے بعد ٹائیگر نے فوج کے ایک ”مخبر“کو پکڑ کر انکی مارپیٹ کرکے انہیں میجر شکلا تک یہ پیغام پہنچانے کیلئے کہا تھا کہ وہ چھپ کر حملہ کرنے کی بجائے سامنے آجائیں۔چناچہ سمیر ٹائیگر نے یہ دھمکی آمیز پیغام ریکارڈ کیا اور ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈالدی تاہم اگلی ہی صبح کو شکال کی قیادت میں فوج نے سمیر ٹائیگر کو اپنے ہی گاوں دربگام پلوامہ میں اپنے ایک ساتھی سمیت گھیر کر مارگرایا تاہم سمیر کی گولی لگنے سے خود میجر شکلا بھی زخمی ہوگئے تھے۔
سمیر ٹائیگر نے یہ دھمکی آمیز پیغام ریکارڈ کیا اور ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈالدی تاہم اگلی ہی صبح کو شکال کی قیادت میں فوج نے سمیر ٹائیگر کو اپنے ہی گاوں دربگام پلوامہ میں اپنے ایک ساتھی سمیت گھیر کر مارگرایا تاہم سمیر کی گولی لگنے سے خود میجر شکلا بھی زخمی ہوگئے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج نے مغویہ جوان کی تلاش شروع کی ہے اور مذکورہ گاڑی کے ڈرائیور کے ساتھ ساتھ دیگر کئی لوگوں سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔بعض ذرائع کے مطابق فوج نے کئی جگہوں پر چھاپے بھی مارے ہیں تاہم مغویہ جوان کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔جنوبی کشمیر میں جنگجوئیت کا دبدبہ بڑھتا جارہا ہے تاہم یوں کسی فوجی کو اغوا کرنے کا یہ واقعہ منفرد ہے۔حالانکہ گذشتہ سال کے اوائل میں جنگجووں نے کولگام ضلع کے باشندہ ایک نوجوان فوجی افسرعمر فیاض کو اسوقت اغوا کرلیا تھا کہ جب وہ شوپیاں میں ایک رشتہ دار کے یہاں شادی کی تقریب میں شریک ہونے کیلئے آئے ہوئے تھے۔اگلے دن انکی گولیوں سے چھلنی لاش برآمد کرلی گئی تھی۔
اس دوران جنوبی کشمیر کے ہی کولگام ضلع میں سڈورہ ریلوے اسٹیشن کے قریب موٹرسائیکل پر سوار دو نا معلوم افراد نے سی آر پی ایف کے ایک اہلکار پر پتھر سے حملہ کرکے انہیں قابو کرلیا اور پھر انکی سروس رائفل اڑا کر فرار ہوگئے۔فورسز نے یہاں کئی جگہوں پر ناکے بٹھائے ہیں اور مختلف جگہوں پر تلاشی لی جا رہی ہے تاہم آخری اطلاعات آنے تک حملہ آوروں کا کوئی سراغ نہ لگایا جاسکا تھا۔پولس نے اس حوالے سے ایف آئی آر درج کرکے تحقیقات شروع کردی ہے۔واضح رہے کہ وادی میں ایک طرف نوجوانوں کا جنگجوئیت کی طرف میلان بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب جنگجوو¿ں کو ہتھیاروں کی کمی کا سامنا ہے جسکی وجہ سے پولس اور سرکاری فورسز سے اسلحہ چھین لئے جانے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔ابھی تک مسلح جنگجو پولس یا فورسز اہلکاروں پر گولی چلا کر انسے اسلحہ چھین لینے کی کوشش کرتے آرہے تھے تاہم اب یہ سلسلہ مزید خطرناک ہوگیا ہے کیونکہ فورسز سے بندوق کی بجائے دیگرمعمولی” ہتھیاروں“سے حملہ کرکے اسلحہ چھیننے کے واقعات پیش آنے لگے ہیں۔چناچہ گذشتہ ہفتے کولگام میں ہی دو نوجوانوں نے سی آر پی ایف کے ایک افسر پر کلہاڑی سے حملہ کرکے انسے انکا اسلحہ چھین لینے کی ناکام کوشش کی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ جنگجووں نے انسے ملنے پر آمادہ لڑکوں کیلئے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ اپنے استعمال کیلئے خود سرکاری فورسز سے اسلحہ چھین کر لے آئیں تب جاکر ہی انہیں جنگجووں کی صفوں میں شمولیت کی اجازت مل سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نوجوان نہتے ہاتھوں یا کلہاڑے جیسی چیزوں سے حملے کرنے لگے ہیں۔
یہ بھی پڑھئیں