نئی دہلی// مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ”چُپ رہنے اور کچھ نہ کہنے“کی پالیسی کو باالآخر بدلتے ہوئے نریندر مودی کی قیادت والی بھاجپا سرکار نے خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو(آئی بی)کے سابق ڈائریکٹر جنرل دنیشور شرما کواپنا نمائندہ بناکر ”جامع مذاکراتی عمل“شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔مرکزی سرکار کا کہنا ہے کہ شرما کو وسیع اختیارات دئے گئے ہیں اور وہ،علیٰحدگی پسندوں سمیت،جس سے چاہیں ملکر جموں کشمیر کے عوام کی”جائز خواہشات“ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے پیر کو نئی دلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جموں کشمیر میں مذاکراتی عمل شروع کرنے کا باضابطہ اعلان کیا اور کہا کہ یہ اقدام وزیرِِ اعظم نریندر مودی کی یوم آزادی کے موقعے پر کی گئی تقریر کے مطابق اٹھایا گیا ہے۔ مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو ”گالی یا گولی“سے نہیں بلکہ کشمیریوں کو گلے لگانے سے حل کیا جاسکتا ہے۔راجناتھ سنگھ نے کہا کہ مرکزی سرکار جموں کشمیر میں ”سبھی متعلقین“کے ساتھ بات چیت کرکے ریاستی عوام کی ”جائز خواہشات“کو سمجھنا چاہتی ہے۔مذاکرات کاری کا یہ اچانک اعلان ان حالات میں کیا گیا ہے کہ جب تفتیشی ایجنسی این آئی اے نے ریاست کے مزاحمتی خیمہ میں افراتفری مچائی ہوئی ہے۔
دنیشور شرماکا مشن2002کے بعد مرکزی سرکار کا شروع کردہ اپنی نوعیت کا چوتھا مشن ہوگا۔سب سے پہلے کے سی پنتھ کو نامزد کیا گیا تھا جسکے بعد موجودہ ریاستی گورنر این این ووہراکو مذاکرات کار بنایا گیا تھا اور پھرسابق نائبِ صدر ایم ایم انصاری اورصحافی دلیپ پڈگاﺅنکر نے ”متعلقینِ مسئلہ کشمیر“کو مصروف کئے رکھا تاہم مذاکراتی کاری کے ان ادوار کا کوئی ٹھوس نتیجہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔
اقتدار میں آنے کے تین سال بعد بھاجپا کی جانب سے جموں کشمیر کے تصفیہ کیلئے اُٹھایا جانے والا یہ ”ٹھوس قدم“2002سے لیکر اپنی نوعیت کی چوتھی کوشش ہوگی تاہم کانگریس کی بجائے بھاجپا نے کسی ماہرِ تعلیم،صحافی یا سیاستدان کی بجائے مذاکرات کاری کیلئے آئی بی کے ایک سابق افسر ،دنیشور شرما،کو آگے کردیا ہے۔راجناتھ سنگھ کا کہنا تھا ”حکومتِ ہند کا ایک نمائندہ ہونے کی حیثیت سے دنیشور شرما جامع مذاکرات کے تحت منتخب حکومت، سیاسی پارٹیوں، مختلف تنظیموں اور ریاستی عوام کے ساتھ بات چیت کریں گے اور اس دوران ریاستی عوام کی جائز خواہشات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تاکہ ریاست میں قیام امن کو یقینی بنایا جاسکے“۔انہوں نے کہا کہمذاکرات کار کی حیثیت سے دنیشور شرما کا عہدہ حکومتِ ہند کے کابینہ سکریٹری کے ہم پلہ ہوگا جو حکومت میں اعلیٰ ترین انتظامی عہدہ ہے۔
وزیرِ داخلہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا دنیشور شرما علیٰحدگی پسندوں کے ساتھ بھی مذاکرات کریں گے؟تو انہوں نے کہا کہ انہیں کسی کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کرنے کا اختیار حاصل ہوگا جس کا فیصلہ وہ خود کریں گے۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا”حکومت تمام سیاسی جماعتوں اور متعلقین کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کررہی ہے تاکہ وادی میں امن کی بحالی ممکن ہوسکے، مذاکرات کار(دنیشور شرما) اس بات کیلئے آزاد ہونگے کہ وہ کس کے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں“۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ مذاکرات کیلئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے اور نہ ہی اس پر کسی قسم کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کار کی طرف سے لوگوں تک پہنچنے کا عمل عنقریب شروع ہوگا اور اس حوالے سے نوجوانوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
۔مذاکرات کاری کا یہ اچانک اعلان ان حالات میں کیا گیا ہے کہ جب تفتیشی ایجنسی این آئی اے نے ریاست کے مزاحمتی خیمہ میں افراتفری مچائی ہوئی ہے۔
خود دینشور شرما نے میڈیا سے پہلی بار بات کرتے ہوئے کہا” یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، میں کوشش کروں گا کہ اعتماد پر پورا اُتروں، کشمیر میں امن قائم کرنا ہی بہت بڑا کام ہے۔شرما نے مزید کہا” میں آئیندہ آٹھ یا دس روز تک سرینگر پہنچ جاﺅں گا جس کے بعد میرا کام شروع ہوگا۔انہوں نے کہا” وادی کا دورہ کرنے کے دوران وہاں کی صورتحال کا جائزہ لیکر ایک منصوبہ تیار کیا جائیگا،جس پر آگے چل کر عمل ہوگا“۔ان کا کہنا تھا کہ توجہ امن کے قیام اور مستقل حل پر مرکوز ہوگی۔انہوں نے علیحدگی پسندوں کا نام لئے بغیر کہا کہ تمام متعلقین سے بات ہوگی تاکہ کسی نتیجہ پر پہنچا جائے۔
دنیشور شرماکا مشن2002کے بعد مرکزی سرکار کا شروع کردہ اپنی نوعیت کا چوتھا مشن ہوگا۔سب سے پہلے کے سی پنتھ کو نامزد کیا گیا تھا جسکے بعد موجودہ ریاستی گورنر این این ووہراکو مذاکرات کار بنایا گیا تھا اور پھرسابق نائبِ صدر ایم ایم انصاری اورصحافی دلیپ پڈگاﺅنکر نے ”متعلقینِ مسئلہ کشمیر“کو مصروف کئے رکھا تاہم مذاکراتی کاری کے ان ادوار کا کوئی ٹھوس نتیجہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔سال2010کی پر تشدد ایجی ٹیشن کے بعد کانگریس کی سربراہی والی یو پی اے سرکار نے جموں کشمیر میں زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کے ساتھ بات چیت کیلئے دلیپ پڈگاﺅنکر کی سربراہی میں تین مذاکرات کاروں کی تقرری عمل میں لائی تھی۔انہوں نے ریاست کے درجنوں دورے کئے اور اپنی ایک مفصل رپورٹ مرکزی وزارت داخلہ کو پیش کی لیکن اس رپورٹ کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔