جموں کشمیر میں بھاجپا کے صدر رویندر رینا کا یہ کہنا ،کہ ریاسی ضلع میں دریافت شُدہ لیتھیئم کے ذخائر بھارت کو سونے کی چِڑیا بنادینگے،مختصراََ اس دریافت کی اہمیت بیان کرتا ہے۔بھارت نے چند دن قبل ہی یہ حیران کُن اعلان کیا ہے کہ اسکے سائنسدان ریاسی میں لیتھیئم ڈھونڈ نے میں کامیاب رہے ہیں اور اُنکے ہاتھ اس قیمتی دھات کا پانچ ملین ٹن سے بھی زیادہ بڑا ذخیرہ لگا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ سائنسدانوں کو اُمید ہے کہ اس ذخیرے کا ابتدائی تخمینہ کہیں زیادہ بڑھ جائے گا۔
مرکزی وزارتِ کان کنی نے باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جیولوجیکل سروے آف انڈیا نے جموں کشمیر کے ریاسی ضلع میں لیتھیئم کے ذخائر دریافت کیے ہیں۔ وزارت کے سکریٹری وِوِک بھاردواج نے بتایا کہ سائنسدان دو سال سے اس علاقے میں لیتھیئم کی تلاش میں لگے ہوئے تھے اور باالآخر اُنہیں کامیابی ملی ہے اور ابتدائی طور 5.9ملین ٹن کا ذخیرہ ملا ہے جس میں آگے چل کر اضافہ ہوسکتا ہے۔ حالانکہ سال 2021میں کرناٹکا میں بھی لیتھیئم کے کچھ نشانات تو ملے تھے تاہم یہ پہلی بار ہے کہ جب بھارت میں کہیں اس مقدار میں لیتھیئم کا ذخیرہ ملا ہے کہ جسے لیکر کان کنی کی جاسکتی ہے اور جس پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔ پھر یہ دریافت ان حالات میں ہوئی ہے کہ جب ایک طرف پاکستان اندرونی سیاست کی اُتھل پتھل اور اقتصادی بحران کی وجہ سے بسترِ مرگ پر ہے تو دوسری جانب کشمیر میں حالات کافی ’’بدلے ہوئے ہیں‘‘ بلکہ ایک ’’نیا کشمیر‘‘ بن چُکا ہے۔ مطلب یہ کہ بھارت کسی رُکاوٹ، جو آج سے چند سال پہلے کے حالات میں قابلِ غور ہوسکتی تھی، کے بغیر اس خزانے سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ مرکزی سرکار نے ویسے بھی اس سے قبل کہا ہوا ہے کہ وہ نئی ٹیکنالوجیز کے فروغ کے لیے نایاب دھاتوں کی سپلائی بڑھانے پر سوچ و بچار جاری رکھے ہوئے ہے اس مقصد کیلئے درونِ مُلک اور بیرونی دُنیا میں وسائل تلاش کئے جا رہے ہیں۔
موجودہ وقت میں کہ جب موبائل فون،لیپ ٹاپ،گھڑیوں اور اب گاڑیوں کیلئے تادیر چارج رہنے والی بیٹریوں کی ضرورت بہت زیادہ اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے لیتھیئم کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ چناچہ دُنیا بھر کے ممالک موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کے لئے کاربن اخراج سے پاک اقدامات اُٹھانے کی کوشش میں ہیں اور ایسے میں لیتھئیم جیسی نایاب دھاتوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ یہ کسی حد تک ڈیزل اور پٹرول جیسی چیزوں ،جو ماحول کو بہت زیادہ آلودہ کرتی ہیں،کا متبادل فراہم کرتی ہیں۔
پھر یہ دریافت ان حالات میں ہوئی ہے کہ جب ایک طرف پاکستان اندرونی سیاست کی اُتھل پتھل اور اقتصادی بحران کی وجہ سے بسترِ مرگ پر ہے تو دوسری جانب کشمیر میں حالات کافی ’’بدلے ہوئے ہیں‘‘ بلکہ ایک ’’نیا کشمیر‘‘ بن چُکا ہے۔ مطلب یہ کہ بھارت کسی رُکاوٹ، جو آج سے چند سال پہلے کے حالات میں قابلِ غور ہوسکتی تھی، کے بغیر اس خزانے سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔
دراصل لیتھیئم کی بنائی ہوئی بیٹریاں روایتی بیٹریوں سے کئی زیادہ دیرپا اور قابلِ اعتماد ہیں اور الیکٹرک گاڑیاں،جو ماحول دوست ہونے کی وجہ سے ،دراصل لیتھیئم سے بنی بیٹریوں کی بنیاد پر ہی قائم ہیں۔چناچہ بھارت میں بھی الیکٹرک گاڑیوں کا چلن زور پکڑنے لگا ہے۔مُلک نے ماحولیاتی آلودگی اور اسکی وجہ سے ہورہی گلوبل وارمنگ کے انسدادی اقدامات کے بطور 2030تک بیٹری سے چلنے والی گاڑیوں کی تعداد میں 30فیصد کے اضافہ کا نشانہ مقرر کیا ہوا ہے اور مُلک فی الحال آسٹریلیا اور ارجنٹینا سے لیتھیئم درآمد کرتا آرہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب لیتھیئم جیسی نایاب دھات درونِ خانہ دستیاب ہوجائے تو ایک طرف مُلک کی خود انحصاری اور اعتماد میں اضافہ ہوگا تو دوسری جانب ایک خطیر رقم بچ جائے گی بلکہ آمدنی کا ایک نیا دروازہ بھی کھُل جائے گا۔ایک رپورٹ کے مطابق 2020-21 میں مُلک نے 173کروڑ روپے کا لیتیئم اور 8811کروڑ روپے کا لیتھیئم آئیان خریدا ہے۔پھر ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ریاسی میں ملنے والا لیتھیئم اس دھات کی مطلوبہ کوالٹی سے کئی درجہ بہتر ہے اور ذخیرہ بھی اتنا ہے کہ جو بھارت کو اس میدان میں ایک بڑا عالمی بیوپاری بناسکتا ہے۔
سرکار کے اربابِ حل و عقد یا سرکاری محکموں کے اعلیٰ حُکام شائد ،کئی وجوہات کیلئے،اپنی خوشی کا اظہار کرنے میں تحمل برتتے ہوں لیکن رویندر رینا نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دریافت سے بھارت سونے کی چِڑیا بن جائے گا۔