کرونا وائرس سے بُری طرح متاثر ،ریڈ زون کہلانے والے،علاقوں میں ڈاکٹروں کے ذرئعہ کرائے جانے والے سروے پر سوال کھڑا کرتے ہوئے بعض ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی سرگرمیوں سے بیماری کو قابو کرنے سے زیادہ اسکے مزید پھیلاؤ کا خدشہ ہے۔تاہم ڈاکٹروں کی تنظیم ’’ڈاکٹرس ایسوسی ایشن آف کشمیر‘‘(ڈی اے کے)کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں ہر خطرہ اٹھانے کو تیار ہے البتہ طبی عملہ کو ذاتی حفاظت کا بہتر سازوسامن مہیا کرایا جانا چاہیئے۔
وادیٔ کشمیر میں تالہ بندی اور اس طرح کی سبھی احتیاطی تدابیر کے برقرار ہونے کے باوجود بھی کرونا وائرس کی بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے اور ہر گذرتے دن کے ساتھ نہ صرف مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے بلکہ نئے علاقے بھی ملوث ہوتے نظر آرہے ہیں۔چناچہ بدھ کو 33نئے مریضوں میں کرونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی جو کہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ کرونا وائرس کے تیز رفتاری کے ساتھ پھیلنے کے ساتھ ساتھ سرکاری انتظامیہ نے بچاؤ کارروائیاں تیز کی ہیں جنکے تحت بیماری کی زد میں آنے کے خطرے سے دوچار علاقوں کی زمرہ بندی کی گئی ہے۔جس کسی مریض میں کرونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو اسکی رہائش کے آس پاس تین سو میٹر کا علاقہ ’’ریڈ‘‘اور مزید تین سو میٹر کا علاقہ’’بفر‘‘زون قرار دیا گیا ہے۔ریڈ اور بفر زون میں رہنے والے سبھی گھروں میں طبی عملہ ،جس میں ڈاکٹر اور معاون عملہ شامل ہے،کو بھیج کر مکینوں کا ملاحظہ کرایا جاتا ہے تاکہ کسی بھی شخص میں کرونا کی کوئی علامت ہو تو اسے قرنطینہ کیا جائے۔
ایک صاحب نے ہمیں یہ کہکر گھر میں داخلہ ہی نہ دیا کہ وہ یا انکے گھر والے کئی دنوں سے گھر کی چار دیواری تک محدود ہیں ،کہیں آتے جاتے نہیں ہیں لیکن اگر طبی عملہ انسے ملا تو انہیں خدشہ ہے کہ وہ بیمار ہوجائیںگے
سرینگر،بارہمولہ اور بانڈی پورہ اضلاع کے ریڈ زونز کے سروے پر تعینات ڈاکٹروں اور طبی عملہ نے سروے کے اس عمل کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’ایک طرف ہم اسپتالوں میں کام کرتے ہیں جہاں بے شمار مریض آتے ہیں، جن میں کرونا متاثر مریضوں کا شامل ہونا ممکن ہے،اور دوسری جانب ہمیں ریڈ اور بفر زونز کے سروے پر لگایا گیا ہے۔چناچہ ابھی لوگ بہت ہوشیار ہیں اور وہ گھروں میں محفوظ بیٹھے ہیں،ایسے کئی لوگ ہیں کہ جو ڈاکٹروں کو یہ اندر بھی نہیں آنے دیتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ گھروں کے اندر محفوظ ہیں کہیں ڈاکٹرہی انفکشن لیکر نہ آئیں اور ان سبھی کو بیمار کریں‘‘۔ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک ڈاکٹرنے،انکا نام نہ لینے کی شرط پر،بتایا’’ایک صاحب نے ہمیں یہ کہکر گھر میں داخلہ ہی نہ دیا کہ وہ یا انکے گھر والے کئی دنوں سے گھر کی چار دیواری تک محدود ہیں ،کہیں آتے جاتے نہیں ہیں لیکن اگر طبی عملہ انسے ملا تو انہیں خدشہ ہے کہ وہ بیمار ہوجائیںگے‘‘۔مذکورہ ڈاکٹر نے کہا’’ہم نے ان صاحب کو بڑا سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے یہاں تک کہ ہمیں گھر میں داخلہ نہ ملا اور باہر ہی سے واپس لوٹنا پڑا۔
پلوامہ کے ایک ریڈ زون کے ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم نے بتایا’’اس بات کا بڑا احتمال ہے کہ جو ڈاکٹر اسپتالوں میں بیماروں کے رابطےمیں رہتے ہیں اور پھرہمارے گھر آتے ہیں وہ ہمیں بیمار بھی کرسکتے ہیں یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی گھر بیماری میں ملوث ہو اور طبی عملہ کو بیمار کرنے کی وجہ بنے،ان لوگوں کے پاس تو باضابطہ ڈریس بھی نہیں ہوتی ہے‘‘۔واضح رہے کہ دنیا میں کرونا وائرس کے تباہ کردہ علاقوں میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں ڈاکٹر اور نیم طبی اہلکار بھی کرونا کا شکار بنے ہیں یہاں تک کہ پاکستان میں ابھی 138نوجوان ڈاکٹر کرونا کا شکار ہیں جبکہ کم از کم تین کی موت واقع ہوچکی ہے۔
ڈاکٹروں کی انجمن ’’ڈی اے کے‘‘کے صدر ڈاکٹر سہیل نائیک نے بتایا’’موجودہ حالات میں ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ ہراول دستہ بنا ہوا ہے،ہم کسی بھی حال میں کام کرنے پر تیار ہیں لیکن ڈاکٹروں اور نیم طبی عملہ کو ذاتی حفاظت کا وہ سازوسامان ملنا چاہیئے کہ جسکی عالمی صحت تنظیم نے سفارش کی ہوئی ہے‘‘۔ڈاکٹر سہیل نائیک نے کہا’’سرکار کو ہر طرح کی احتیاط برتنی چاہیئے ،اگر یہ بات ممکن ہو کہ کہیں پر کوئی کام، جو ابھی ڈاکٹروں سے کرایا جارہا ہے،کسی اور سرکاری یا غیر سرکاری اہلکار سے کرایا جاسکتا ہو تو وہ کرایا جانا چاہیئے اور ڈاکٹروں کو انکے اصل کام کیلئے مختص رکھا جانا چاہیئے لیکن ہم کمیونٹی میڈیسن کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جہاں سرکار کو طبی عملہ کیلئے سبھی ضروریات مہیا کرانی چاہیئے وہیں لوگوں کو اس عملہ کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیئے۔انہوں نے کہا’’ہمیں ایک ہوکر کرونا کو قابو کرنا ہوگا‘‘۔