وادیٔ کشمیر میں قلیل اور نا مناسب طبی سہولیات ہونے کے باوجود کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کامیاب ہوتے نظر آرہا ہے اور ڈاکٹروں کو یقین ہے کہ وہ صورتحال کو بے قابو نہیں ہونے دینگے۔ حالانکہ یہاں ہر گذرتے دن کے ساتھ کرونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور”ریڈ زونز“کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے۔جمعہ کو بھی سابق ریاست میں پانچ نئے مریضوں کی تصدیق ہوئی جن میں جموں صوبہ کا ایک اور باقی چار کشمیر کے رہائشی ہیں۔اس طرح جموں کشمیر میں کرنا وائرس کے کل75مریض ہیں۔
سرینگر میں کرونا وائرس کے مریضوں کیلئے تین اسپتال مختص کئے جاچکے ہیں جبکہ ہزاروں مشتبہ مریضوں کیلئے سرکاری عمارتوں،ہوٹلوں اور اسکولوں میں قرنطینہ کے مراکز قائم کئے جاچکے ہیں۔سابق ریاست میں باالعموم اور وادی کشمیر میں باالخصوص طبی سہولیات تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں فقط 97وینٹی لیٹر ،یعنی فی71000کیلئے ایک،دستیاب ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ بعض ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کرونا کے مریضوں کی بہتر دیکھ بال کرنے کیلئے اُنکے پاس وہ حفاظتی سہولیات بھی نہیں ہیں کہ جنکی عالمی صحت تنظیم نے تجویز کی ہوئی ہے۔تاہم اس مشکل کے باوجود بھی ابھی تک کرونا وائرس کے حوالے سے کشمیر میں صورتحال قابو میں ہے جسکے لئے قدرت کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی ڈاکٹروں کی جانفشانی کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔
ڈل جھیل کیلئے داخلی دروازے کی حیثیت رکھنے والے ڈلگیٹ میں ایک پہاڑی پر تعمیر امراضِ دمہ کے اسپتال (چسٹ ڈزیز یا سی ڈی اسپتال)،جسے ان دنوں کرونا مریضوں کیلئے مختص کیا جاچکا ہے،کے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ انتہائی قلیل بلکہ نہ ہونے کے برابر سہولیات کے ساتھ انہوں نے کرونا مریضوں کو پیشہ ورانہ طور سنبھالا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ فی الوقت اسپتال میں 22مریض داخل ہیں جن میں سے ایک پوری طرح روبہ صحت ہونے کے بعد اب قرنطینہ میں ہیں اور جلد ہی گھر بھیجے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سبھی مریضوں کی حالت مستحکم ہے اور وہ بڑی حد تک ٹھیک ہوتے محسوس ہورہے ہیں۔
اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر نوید نذیر نے حال ہی اسپتال میں بھرتی کرونا وائرس کا شکار سبھی مریضوں کے ساتھ تفصیلی ملاقات کی اور انہیں حوصلہ رکھنے کی نصیحت دیتے ہوئے کہاکہ وہ زندگی کی امید نہ چھوڑیں۔اسپتال میں بھرتی ایک مریض کے رشتہ داروں نے بتایا کہ ڈاکٹر نوید نے ان مریضوں کو بتایا کہ ڈاکٹروں نے امید نہیں چھوڑی ہے لہٰذا خود مریضوں کو بھی یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ انکے مرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے اور اب کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔مریض کے ان رشتہ داروں نے کہا”اس حوصلہ افزائی سے مریضوں پر بڑا مثبت اثر ہوا ہے اور پھر جب میڈیکل انسٹیچیوٹ میں حال ہی کشمیر کی پہلی کرونا مریضہ کی چھٹی ہوئی تو اس سے مریضوں میں یقیناََ امید بڑھ گئی ہے“۔
ڈاکٹر نوید نے ان مریضوں کو بتایا کہ ڈاکٹروں نے امید نہیں چھوڑی ہے لہٰذا خود مریضوں کو بھی یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ انکے مرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے اور اب کچھ نہیں ہوسکتا ہے
وادی ¿ کشمیر میں18مارچ کو سرینگر کے خانیار علاقہ کی ایک خاتون کی پہلی کرونا مریض کے بطور شناخت کی گئی تھی اور یہ خبر پورے کشمیر میں تباہ کن بم کی طرح دھماکے کے ساتھ گویا پھٹ گئی تھی اور لوگ انتہائی خوفزدہ ہوگئے تھے۔دلچسپ ہے کہ 67سالہ اس مریضہ،جو عمرہ کرنے کے دوران انجانے میں کرونا وائرس کا شکار ہوچکی تھیں،کو میڈیکل انسٹیچیوٹ صورہ سے روبہ صحت ہونے پر رخصت کردیا گیا ہے اور وہ صحیح سلامت ہیں۔ حالانکہ کرونا نے ابھی تک کشمیر میں دو افراد کو لقمۂ اجل بھی بنادیا ہے تاہم پہلی مریضہ کے ٹھیک ہونے نے ایک امید دلائی ہوئی ہے۔انسٹیچیوٹ کے ایک ڈاکٹر نے کہا”یہ ایک طرح کا معجزہ ہی ہے کہ جو ہم نے اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا ہے۔ہم نے عالمی صحت تنظیم کے راہنما خطوط کے مطابق مریضہ کا علاج کیا جو خوش قسمتی سے کامیاب رہا،ہمیں اور ہمارے ساتھ ساتھ بیماروں کو بھی امید نہیں چھوڑنی چاہیئے“۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی بیماری میں جب تک مریض اور ڈاکٹر پُر امید رہیں مریض کے ٹھیک ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا”اللہ نے بڑا کرم کیا ہے نہیں تو جیسا کہ میڈیا میں بھی آچکا ہے کشمیر میں طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں،یہاں ایک سونامی آسکتی تھی لیکن ہمیں یقین ہے کہ صورتحال کو بے قابو نہیں ہونے دیا جائے گا“۔