بعض مریض اشتعال انگیز حرکات کرتے ہیں:ڈاکٹر سامیہ رشید

اسوقت جب پوری دنیا کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر کو بھی کرونا وائرس نے ایک تباہ کن صورتحال سے دوچار کیا ہوا ہے اور مقامی ڈاکٹر ،تقریباََ نہ ہونے کے برابر سہولیات،کے ساتھ دن رات کام کررہے ہیں،گورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی)کی پرنسپل ڈاکٹر سامیہ رشید نے کہا ہے کہ بعض مریض ڈاکٹروں کو اشتعال دلا رہے ہیں۔انہوں نے تاہم کہا ہے کہ اشتعال انگیزی کے باوجود بھی ڈاکٹر زندگیوں کو بچانے کیلئے تھکے بغیر کام کر رہے ہیں۔لوگوں سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے ڈاکٹر سامیہ رشید نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس کے ایک مشتبہ مریض نے اُنکا علاج کرنے والی ایک خاتون ڈاکٹر کو حراساں کرنے کیلئے انکے منھ پر کھانسا جبکہ ایک اور مریض نے ڈاکٹروں کو وارڈ کے باہر بند کردیا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کرونا وائرس اس سے متاثرہ مریض کے کھانسنے ،چھینکنے اور چھونے سے پھیلتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ایک چوتھائی حصہ میں ابھی تالہ بندی ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے جسے سوشل ڈسٹنسنگ کا نام دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر،نرسیں اور نیم طبی عملہ، بشمول صحت کی دیکھا بال کرنے والے اور صفائی کرنے والے کارکنان،آپ کی زندگی بچانے کیلئے اپنی(زندگی)خطرے میں ڈال رہے ہیں

اپنے ایک ٹویٹ میں ڈاکٹر سامیہ نے کہا ہے”سخت اشتعال انگیزی کے باوجود،بشمولِ ایک مریض کے ڈاکٹروں کو وارڈ کے باہر بند کردینے کے واقعہ اور ایک مشتبہ کرونا وائرس مریض کے ایک خاتون ڈاکٹر کے منھ پر کھانسے کے واقعہ،ڈاکٹر (صاحبان) زندگیاں بچانے کیلئے مسلسل کام کررہے ہیں۔برائے کرم مشکل کی اس گھڑی میں مہربان رہیئے“۔ ڈاکٹر سامیہ،جوجی ایم سی سرینگر اور اس سے منسلک اسپتالوں کی سربراہ ہونے سے قبل ایک معروف معالج ہیں،نے تاہم طبی عملہ کے ساتھ پیش آمدہ ان نا خوشگوار واقعات کی مزید کوئی تفصیلات نہیں بتائی ہے۔تاہم انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں لوگوں سے طبی عملہ کے تئیں پھر تعاون مانگتے ہوئے لکھاکہ اسوقت زندگیاں بچانے کا وقت ہے نہ کہ تنقید کا۔
کرونا وائرس کی مہلک بیماری نے پوری دنیا میں تباہی مچادی ہے یہاں تک کہ امریکہ و یورپ میں ڈاکٹروں نے وہاں معقول طبی سہولیات کے دستیاب نہ ہونے کی شکایت کی ہے۔چونکہ اس وائرس کی ابھی تک کوئی دوائی ایجاد نہیں ہو پائی ہے لہٰذا ڈاکٹر صاحبان کا تجربہ واحد امید بنا ہوا ہے۔جموں کشمیر میں ابھی تک زائد از پانچ ہزار افراد اس وائرس سے متاثر ہونے کیلئے مشتبہ ہیں جبکہ قریب پچاس مریضوں میں مہلک وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں سے دو کی موت بھی واقع ہوچکی ہے۔اس وائرس سے متاثر مریضوں کیلئے عالمی صحت تنظیم(ڈبلیو ایچ او)کے راہنما اصول کے مطابق سرکاری انتظامیہ نے مختلف جگہوں پر قرنطینہ کے مراکز قائم کرنے کے ساتھ ساتھ وائرس کا شکار مصدقہ مریضوں کی دیکھ بال کیلئے خصوصی اسپتال قائم کئے ہوئے ہیں جہاں آنے والے مریضوں اور انکے تیمارداروں نے تاہم سہولیات اور توجہ کی کمی کی شکایت کی ہے۔


ڈاکٹروں کا تاہم کہنا ہے کہ انہیں خود بھی اس آفتِ سماویٰ سے نپٹنے کی سہولیات اور انتظامات فراہم نہیں ہیں۔ایک ڈاکٹر نے ،انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر،بتایا”سچ پوچھیئے تو ہمیں ماسک جیسی بنیادی چیز دستیاب نہیں ہے ان خصوصی کپڑوں وغیرہ کی تو بات ہی نہیں ہے کہ جن میں ملبوس غیر کشمیری ڈاکٹروں کو آپ نے بیرون جموں کشمیر مریضوں کا علاج کرتے ہوئے دیکھا ہوگا“۔میڈیکل کالج میں کام کرنے والے ان ڈاکٹر صاحب نے کہا”اندازہ لگایئے کہ پیریفری(مضافات)کے ایک اسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر صاحب نے اپنے استعمال کیلئے مجھ سے ذاتی طور ایک (خاص)ماسک مانگی تھی لیکن میں دستیاب نہیں کراسکا کیونکہ مجھے خود مشکل سے ایک ماسک مل سکی ہے۔ہم کسی پر احسان نہیں کر رہے ہیں لیکن ہمیں سوچنا چاہیئے کہ ہمارے حالات مشترکہ ہیں“۔ایک اور ڈاکٹر کا کہنا ہے ”میں چونکہ کووِڈ مریضوں کیلئے ڈیوٹی پر ہوں اور بہترین Gearبھی دستیاب نہیں ہے لہٰذا میں کئی دن سے گھر ہی نہیں گیا تاکہ میرے بچے وغیرہ ملوث نہ ہوں، ایسے میں ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات کوئی ڈاکٹر بھڑک بھی جائے لیکن لوگوں کو یہ ساری چیزیں سمجھنے کا وقت ہی نہیں ہے“۔انہوں نے کہا کہ ہمارے اسپتالوں میں یقیناََ بہت زیادہ سہولیات نہیں ہیں لیکن موجودہ وقت اس بات پر جھگڑنے کا نہیں بلکہ جو کچھ بھی دستیاب ہے اسے بروئے کار لاتے ہوئے انسانی زندگیوں کو بچانے کا ہے۔

کرونا وائرس کے ایک مشتبہ مریض نے اُنکا علاج کرنے والی ایک خاتون ڈاکٹر کو حراساں کرنے کیلئے انکے منھ پر کھانسا

ڈاکٹر سامیہ نے انہی چیزوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک اور ٹویٹ یوں کیا ”ڈاکٹر،نرسیں اور نیم طبی عملہ، بشمول صحت کی دیکھا بال کرنے والے اور صفائی کرنے والے کارکنان،آپ کی زندگی بچانے کیلئے اپنی(زندگی)خطرے میں ڈال رہے ہیں۔برائے کرم اس بحران میں انکے اور انکے خاندانوں کیلئے کچھ تو ہمدردی رکھیئے۔یہ وقت تنقید کرنے یا انگلیاں اٹھانے کا نہیں ہے۔گھر بیٹھیئے،محفوظ رہیئے“۔
 

Exit mobile version