سوختہ دیواروں پر لطیف ٹائیگر کے خونِ جگر کی لکیریں؟

شوپیاں// جموں کشمیر میں سرکاری فورسز کا جنگجووں کے خلاف ”آپریشن آل آوٹ“جاری ہے اور یہاں آئے دنوں مقامی جنگجووں کو مار گرایا جارہا ہے۔تاہم مارے جانے والے جنگجو،جنکی اکثریت تیس سال سے کم عمر والے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکوں پر مشتمل ہے،آخری لمحات میں ایسے پیغامات چھوڑ کر جاتے ہیں کہ جنہیں انکے مخالفین بھی ”جرات کا اعلیٰ مظاہرہ“مانتے ہیں اور پھر یہ پیغامات نئے لڑکوں کو بندوق اٹھانے پر آمادہ کرنے کی اہم وجہ بن جاتے ہیں۔

ٹائیگر کے بارے میں ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا انہوں نے مارے جانے سے قبل اپنے گھر والوں یا کسی دوست وغیرہ کو کوئی فون بھی کیا تھا تاہم انکی جائے پناہ کی دیواروں پر خون سے رقم تحریر سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں مرتے مرتے کوئی ”خوف“نہیں رہا ہے۔

جمعہ کو جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں حزب المجاہدین کے سینئر کمانڈر لطیف ڈار عرف ٹائیگر اپنے دو مقامی ساتھیوں سمیت ایک جھڑپ کے دوران مارے گئے۔لطیف تنظیم کے ”آئکونک کمانڈڑ“ برہان وانی کے قریبی ساتھیوں میں سے آخری زندہ جنگجو تھے اور قریب پانچ سال سے سرگرم رہتے ہوئے سرکاری فورسز کے ساتھ لُکا چھُپی کا کھیل کھیل رہے تھے۔حالانکہ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ پانچ سل کے دوران ٹائیگر کئی بار نرغے میں آنے کے بعد آخری وقت چکمہ دیکر فرار ہوتے رہے جبکہ کئی بار انکے مارے جانے کی افواہیں بھی اُڑیں تاہم جمعہ03مئی کا دن انکی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا کہ جب انہیں امام صاحب شوپیاں میں فوج اور دیگر سرکاری فورسز نے ایک مختصر جھڑپ کے دوران مار گرایا۔اس جھڑپ میں فورسز نے حسبِ معمول اس مکان کو زمین بوس کردیا کہ جہاں یہ جنگجو پناہ لئے ہوئے تھے۔چناچہ ٹائیگر اور انکے ساتھیوں کے فورسز کے نرغے میں آنے کی خبر پھیلتے ہی آس پڑوس کے ہزاروں لوگوں نے جلوس نکال کر انکا دفاع کرنا چاہا لیکن انہیں کامیابی نہ ملی تاہم ان تینوں کی لاشیں برآمد ہوئیں تو انکے آبائی علاقوں میں گویا لوگوں کے سمندر بہنے لگے۔لطیف ٹائیگر اور انکے ساتھیوں کی کئی کئی بار نمازِ جنازہ پڑھی گئی اور پھر بڑے جذباتی انداز میں انہیں سپردِ خاک کیا گیا۔
جنگجووں کی تدفین سے فارغ ہونے کے بعد ہزاروں لوگوں میں سے بیشتر کی اگلی دلچسپی اس مکان کا معائنہ کرنا تھا کہ جس میں رہتے ہوئے ٹائیگر اور انکے ساتھیوں کو مار گرایا گیا ہے۔وادی کشمیر میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک معمول ہے کہ علیٰحدگی پسند جنگجو کہیں فورسز کے محاصرے میں آئیں تو مقامی لوگ اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر انکی مدد کو پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسا کرنے کے دوران گذشتہ دو ایک برسوں کے دوران جنوبی کشمیر میں باالخصوص اور وادی کے دیگر علاقوں میں باالعموم کئی عام شہری سرکاری فورسز کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں جبکہ کئی بار لوگ جنگجووں کو بچا کر لیجانے میں کامیاب بھی ہوگئے ہیں۔سرکاری فورسز اور جنگجووں کے بیچ جھڑپوں کے بعد لوگوں کا جائے واردات پر جاکر یہاں کا جائزہ لینا بھی کشمیر میں ایک معمول بن چکا ہے۔حالانکہ یہ بات خطرناک بھی ثابت ہوتی رہی ہے کیونکہ کئی جائے ہائے واردات پر پھٹنے سے رہ گئے بموں اور دیگر بارودی اشیاءکے پھٹنے سے کئی عام لوگو،بشمولِ بچوں کے،مارے جاچکے ہیں ۔تاہم لوگ خطرات کے باوجود بھی ان جگہوں پر جاتے آرہے ہیں اور یہاں سیلفی بناتے ہیں۔

سرکاری فورسز اور جنگجووں کے بیچ جھڑپوں کے بعد لوگوں کا جائے واردات پر جاکر یہاں کا جائزہ لینا بھی کشمیر میں ایک معمول بن چکا ہے۔حالانکہ یہ بات خطرناک بھی ثابت ہوتی رہی ہے کیونکہ کئی جائے ہائے واردات پر پھٹنے سے رہ گئے بموں اور دیگر بارودی اشیاءکے پھٹنے سے کئی عام لوگو،بشمولِ بچوں کے،مارے جاچکے ہیں ۔

لطیف ٹائیگر اور انکے دو ساتھیوں کے مارے جانے کی جگہ لوگ پہنچے تو انہوں نے زمین بوس ہوئے مکان کی دیواروں کے باقیات پر ٹائیگر کے خون آلودہ ہاتھوں کے نشان اور اردو و عربی میں مختصر تحریریں درج پائیں۔ایک دیوار کے باقیات پر علامہ اقبال کا شعر”شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن،نہ مالِ غنیمت نہ کشور کُشائی“درج پایا گیا جسکی تصویر انٹرنیٹ پر وائرل ہوچکی ہے۔خون سے لکھے اس شعر کے ساتھ ساتھ انگریزی میں ٹائیگر کے الفاظ درج تھے جس سے اندازہ ہے کہ یہ شعر لطیف ٹائیگر نے انہیں گولی لگنے کے بعد اپنی انگلیوں کو خون میں ڈبو کر لکھا ہے۔اس سے قبل بھی کئی کشمیری جنگجووں نے مرتے مرتے چھٹیاںاوراپنےخون سے کلمہ طیبہ یا علیٰحدگی پسندی کے نعرے لکھے ہیں جبکہ کئی جنگجووں نے محاصرے میں آنے کے بعد اپنے دوست و اقرباءکو فون کرکے انہیں اپنے انجام پر ”مطمعن“ہونے کا یقین دلایا ہے۔لطیف ٹائیگر کے بارے میں ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا انہوں نے مارے جانے سے قبل اپنے گھر والوں یا کسی دوست وغیرہ کو کوئی فون بھی کیا تھا تاہم انکی جائے پناہ کی دیواروں پر خون سے رقم تحریر سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں مرتے مرتے کوئی ”خوف“نہیں رہا ہے۔ایک پولس افسر نے،انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر،بتایا کہ پچھلے کئی اینکاونٹروں میں پھنسے جنگجووں کی آخری فون کال مزید نوجوانوں کو بھڑکا کر انہیں بندوق اٹھانے پر آمادہ کرتی رہی ہیں جبکہ لطیف ٹائیگر کی آخری تحریر بھی کئی نوجوانوں کو ”متاثر“کرسکتی ہے۔
 
یہ بھی پڑھیئے

بُرہان کے آخری ساتھی ٹائیگر ، دو ساتھی جاں بحق

Exit mobile version