سرینگر// آئی اے ایس (2008) میں اول آکر شہرت کمانے کے دس سال بعد نوکری سے مستعفی ہوکر سیاست میں آئے ڈاکٹر شاہ فیصل نے اتوار کو باالآخر اپنی پارٹی،جموں کشمیر پیوپلز مومنٹ،کا باضابطہ اعلان کیا اور کہا کہ دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ یہ پارٹی جموں کشمیر کے عوام کی خواہشات کے عین مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے جدوجہد کرے گی۔فیصل نے ریاست کو ترقی کے راستے پر ڈالنے اور اسے امن کا گہوارہ بنانے کے ساتھ ساتھ روائتی سلک روٹ کی بحالی اور اس طرح کی کئی جذباتی چیزوں کیلئے جدوجہد کرنے کو اپنے لمبے منشور کا حصہ بناتے ہوئے کشمیریوں،باالخصوص نوجوانوں،کو لبھانے کی کوشش کی ہے۔اس دوران جواہر لال یونیورسٹی کی سابق متنازعہ طلباءلیڈر شہلا رشید شورا نے بھی شاہ فیصل کا جھنڈا اٹھایا ہے جبکہ پارٹی کے دیگر ”بانی لیڈروں“میں کوئی ایک بھی جانا پہچانا چہرہ نہیں ہے۔
فیصل نے کشمیریوں کو صدیوں سے ظلم کا نشانہ بنتے آرہی ایک قوم بتاتے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز بیعنامہ امرتسر کے تذکرہ سے کیا اور کہا کہ کس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی نے16مارچ 1846میںکشمیرکو گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچ دیا تھا۔
شاہ فیصل کی پارٹی کی افتتاحی تقریب میں شمولیت کیلئے وادی کے مختلف علاقوں سے ساڑھے تین سے چار ہزار لوگوں کو لایا گیا تھا جنکے سامنے ”اب ہوا بدلے گی“کا نعرہ لگاتے ہوئے انہیں ایک ”نئے کل“کا خواب دکھایا گیا۔شاہ فیصل نے کشمیریوں کو صدیوں سے ظلم کا نشانہ بنتے آرہی ایک قوم بتاتے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز بیعنامہ امرتسر کے تذکرہ سے کیا اور کہا کہ کس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی نے16مارچ 1846میںکشمیرکو گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچ دیا تھا۔انہوں نے کہا ”سو سال سے زیادہ عرصہ تک ہمیں ایک ریوڑ کی طرح ہانکا جاتا رہایہاں تک کہ اس بیعنامہ کے زخموں کو اب تک نہیں بھلایا جاسکا ہے“۔سیاست میں آنے کے اپنے فیصلے کو ”لوگوں کیلئے کچھ کرنے “کی تڑپ کا نتیجہ بتاتے ہوئے سابق آئی اے ایس افسر نے کہا کہ اس تڑپ نے انہیں پہلے ڈاکٹر بنایا اور پھر دس سال تک آئی اے ایس افسر کے بطور کام کرنے کے بعد انہیں لگا کہ جب تک کشمیر کی نئی پود کو ذلت و رسوائی کا سامنا رہے گا تب تک تعمیروترقی کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا”گذشتہ ستر سال کے دوران ہمارا سیاستدان طبقہ ایسی سیاست کرتا آرہا ہے کہ جس نے لوگوں کو ایک طرح کی غلامی کی جانب دھکیلا ہے۔میں نے دو سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ان میں شامل ہونے کیلئے بات کی،انہوں نے مجھے بڑی عزت سے لیا لیکن جب لوگوں کو پتہ چلا تو انہوں نے مجھے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ان (سیاسی پارٹیوں)کے ہاتھ کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں لہٰذا اگر آپ ان میں سے کسی بھی ایک میں شامل ہوئے تو ہم کبھی آپکا منھ تک نہیں دیکھیں گے“۔انہوں نے کہا کہ ایسا نہ ہوتا تو وہ اپنی سیاسی پارٹی بنانے کی بجائے پہلے سے موجود کسی پارٹی میں شامل ہوگئے ہوتے۔
جواہر لال یونیورسٹی کی سابق متنازعہ طلباءلیڈر شہلا رشید شورا نے بھی شاہ فیصل کا جھنڈا اٹھایا ہے جبکہ پارٹی کے دیگر ”بانی لیڈروں“میں کوئی ایک بھی جانا پہچانا چہرہ نہیں ہے۔
شاہ فیصل نے کہا کہ جو لوگ انہیں اپنے ساتھ شامل ہوتے دیکھنا چاہتے تھے آج وہی انہیں بھاجپا اور آر ایس ایس کا ایجنٹ بتلانے لگے ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ وہ تنقید کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔اس بات پر انہوں نے حبیب جالب کا معروف باغیانہ کلام”میں نہیں مانتا“پڑھا اور کہا کہ انہیں ناقدین کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ انکی پارٹی مذہبی ہے نہ علاقائی بلکہ وہ پوری ریاست کی ترجمانی کرنا چاہتی ہے۔
شاہ فیصل شمالی کشمیر میں لائن آف کنٹرول(ایل اوسی)کے قریبی ضلع کپوارہ کے ایک گاوں کے باشندہ ہیں۔انہوں نے سرینگر کے ایک مشنری اسکول میں بارہویں کا امتحان پاس کرنے کے بعد میڈیکل انسٹیچیوٹ صورہ کے ساتھ منسلک جہلم ویلی کالج(جے وی سی)سے ،جیسا کہ وہ کہتے ہیں لوگوں کیلئے کچھ کرنے کی تڑپ میں،ایم بی بی ایس کیا تاہم انہوں نے ایک ڈاکٹر کے بطور کام کرنے کی بجائے بعدازاں آئی اے ایس کا امتحان دیا جس میں انہوں نے اول آکر بڑا نام کمایا۔اپنی اسی شہرت کی وجہ سے انہیں اپنے دیگر ساتھی افسروں کے مقابلے میں اچھی جگہوں پر تعیناتی ملتی رہی یہاں تک کہ انہوں نے ضلع کمشنر ،ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن اور بعدازاں جموں کشمیر پاور ڈیولوپمنٹ کارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے بطور کام کیا۔2017کے اواخر میں انہیں تبدیل کرکے محکمہ سیاحت میں سکریٹری لگایا گیا تاہم انہوں نے تعلیمی رخصت پر جاکر ہارورڈ میں اعلیٰ تعلیم کیلئے داخلہ لیا جہاں سے لوٹنے پر انہوں نے سال رواں کے اوائل میں استعفیٰ دیکر سیاست میں آںے کا اعلان کیا۔
اس مسئلہ کا،جموں کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق،حل چاہتی ہے تاہم یہ ہندوپاک کو کرنا ہوگا
شاہ فیصل نے اپنی ٹیم کا تعارف دیتے ہوئے ان سبھی کے اچھی پوزیشنوں پر ہونے کے باوجود ”قربانی دینے“کا دعویٰ کیا تاہم ان میں سے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی سابق طالبہ شہلا رشید کو چھوڑ کر ایک بھی معروف چہرہ نہیں ہے۔شہلا کو بھی جموں کشمیر کی بجائے دلی اور دیگر جگہوں پر جانا جاتا ہے جہاں وہ کمیونسٹ سیاست سے متاثر اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ ”متنازعہ سرگرمیوں“کی وجہ سے سرخیوں میں رہتی آئی ہیں۔
شاہ فیصل نے ”تبدیلی“کا نعرہ دیتے ہوئے حاضرین کو ایک نئے کشمیر کا خواب دکھایا جس میں ریاست کو امن و ترقی کا گہوارہ اور جنوبی ایشیاءکا دروازہ اور نہ جانے کیا کیا بنانا شامل ہے۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سابق آئی اے افسر نے کہا کہ انکی پارٹی”اس مسئلہ کا،جموں کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق،حل چاہتی ہے تاہم یہ ہندوپاک کو کرنا ہوگا“۔انہوں نے کہا”میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میں اسے(مسئلہ کشمیر کو)حل کروں گا لیکن ہم سہولت کار بنیں گے“۔
یہ بھی پڑھیئے