سرینگر// جموں کشمیر کو خصوصی پوزیشن دلانے والی آئین ہند کی دفعہ370اور اس سے منسلک دفعہ35-Aکی امکانی تنسیخ سے متعلق جاری بحث و مباحثہ کے دوران ریاست کی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے آج یومِ آزادی کے موقعہ پر کہا کہ ریاست کی شناخت کی حفاظت کیلئے یہاں کی سبھی سیاسی جماعتیں ایک ہیں۔ان دفعات کی تنسیخ کیلئے اُتاولی ہورہی اپنی حلیف بی جے پی کے لیڈروں اور ان دفعات کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد تک جانے کا اعلان کرچکے اپوزیشن نیشنل کانفرنس کے قائدین کی موجودگی میں وزیرِ اعلیٰ نے اُمید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ان دفعات سے متعلق دائر عرضیوں کو خارج کردے گا۔ محبوبہ مفتی نے کسی کا نام لئے بغیر کہا کہ جموں کشمیر میں بھی اور باقی ملک میں بھی کچھ لوگ 47کو دہرانا چاہتے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ ایسی طاقتوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جاسکتا ہے۔
”جہاں جموں وکشمیر کے تشخص کی بات آئے گی ہم سب ایک ہیں،کرسی کی لڑائی الگ ہے، سیاسی لڑائی الگ ہے لیکن جب ہمارے تشخص کی بات آئے گی، ہم سب متحد ہیں“۔
سرینگر کے بخشی اسٹیڈیم سرینگر میں ”71ویں یوم ِ آزادی“ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ جموں وکشمیرکے تشخص کو برقرار رکھنے کےلئے تمام سیاسی جماعتیں متحد ہیں ۔قریب15منٹ کی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ریاست جموں وکشمیرکی خصوصی پوزیشن کو زک پہنچا نے کی کوئی مر تبہ کوششیں کی گئیں لیکن تمام کوششیں ناکام ہوئیں ۔ان کا کہناتھا ”ہمیں اپنے سپریم کورٹ پر یقین ہے، جب جب کسی نے جموں وکشمیر کے خصوصی تشخص کی طرف اُنگلی اُٹھائی اور اس کو زک پہنچانے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ نے اس کوشش کو ناکام بنایا“۔اُنہوں نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں دفعہ370اور آرٹیکل35-A کے خلاف دائر عرضیوں پر کے حوالے سے کہا ” مجھے یقین ہے کہ آج جو معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، سپریم کورٹ وہی موقف اختیار کرے گا جو وہ گذشتہ70 برسوں سے اختیار کرتا آیا ہے“۔ وزیرِ اعلیٰ نے مزید کہا ”میں پُر امید ہوں کہ سپریم کورٹ آف انڈیا دفعہ370اور آرٹیکل35اے کے خلاف دائر عرضیوں کو خارج کرے گا“۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کا دفاع کرنے کےلئے تمام سیاسی جماعتیں متحد ہیں۔محبوبہ مفتی نے کہا”جہاں جموں وکشمیر کے تشخص کی بات آئے گی ہم سب ایک ہیں،کرسی کی لڑائی الگ ہے، سیاسی لڑائی الگ ہے لیکن جب ہمارے تشخص کی بات آئے گی، ہم سب متحد ہیں“۔
آرٹیکل 35-A کو سپریم کورٹ میں چیلنج کئے جانے کے بعد اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے ساتھ ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا”میں کشمیر کے سینئر لیڈر فاروق عبداللہ صاحب کی شکر گذار ہوں جنہوں نے مجھے ملاقات کا موقع دیا، اُنہوںنے بہت ہی پیار ،بلکہ شفیق باپ کی طرح میری بات سُنی اور کچھ مشورے دئے، جن پر میں نے عمل کیا“۔
”ہمیں اس ملک کے ہر ادارے پر یقین ہے،ہم نے دیکھا کہ آج تک کئی کوششیں ہوئیں،جس طرح یہاں کچھ لوگ ہیں جن کی سوچ ہم سے بالکل الگ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں 1947 سے بھی پیچھے جانا چاہیے، اسی طرح ملک میں ایسے لوگ ہیں جو ہمیں1947پر لے جانا چاہتے ہیں،جو کبھی ایک چیز کو لیکر تو کبھی دوسری چیز کو لیکر سپریم کورٹ کا رخ کرتے ہیں“۔
وزیر اعلیٰ نے کسی کا نام لئے بغیر کا کہا ”یہاں بھی اور ملک میں بھی کچھ ایسے لوگ ہیں ،جو ہمیں1947پر لیجانا چاہتے ہیں “۔ان کا کہناتھا ”ہمیں اس ملک کے ہر ادارے پر یقین ہے،ہم نے دیکھا کہ آج تک کئی کوششیں ہوئیں،جس طرح یہاں کچھ لوگ ہیں جن کی سوچ ہم سے بالکل الگ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں 1947 سے بھی پیچھے جانا چاہیے، اسی طرح ملک میں ایسے لوگ ہیں جو ہمیں1947پر لے جانا چاہتے ہیں،جو کبھی ایک چیز کو لیکر تو کبھی دوسری چیز کو لیکر سپریم کورٹ کا رخ کرتے ہیں“۔جموں وکشمیر کو بھارت کا تاج قرار دےتے ہوئے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ جموں وکشمیر ہندوستان کا تاج ہے، اس میں کوئی شک نہیں،بغیر کسی شک و شبہ کے جموں وکشمیر ہندوستان کا تاج ہے اور اس کو تاج بن کر ہی رہنا چاہیے۔
انہوں نے ہند پاک مذاکراتی کی بحالی پر زور دےتے ہوئے کہا کہ جنگ و جدل سے نہیں بلکہ بات چیت سے ہی مسائل کے حل کی راہ ہموار ہوگی جبکہ مذاکرات کی بحالی کی بات پی ڈی پی اور بی جے پی کے مابین طے”ایجنڈا آف الائنس “میںموجود ہے ۔محبوبہ مفتی نے کہا”مجھے اُمید ہے کہ دلی بھی سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپا ئی کے فلسفے پر چل کر مسئلہ کشمیر کا انسانیت کے دائرے میں حل تلاش کرنا چاہئے گی کیو نکہ مسئلہ کشمیر ایک انسانی مسئلہ ہے اور اسے انسانیت کی بنیاد پر ہی حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہند پاک کشیدگی اور تناﺅ کا خمیازہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام کو بھگتنا پڑ تا ہے کیو نکہ دونوں ممالک کے تعلقات کا اثر براہ راست ریاست پر پڑتا ہے“ ۔