سربراہِ ریاست نے مزارِ شہداءپر حاضری نہ دی

سرینگر// جموں کشمیر میں آج مزاحمتی قیادت کی کال پر ہوئی مکمل ہڑتال اور سرکاری انتظامیہ کی جانب سے لگائی گئی کرفیو جیسی پابندیوں کے بیچ یومِ شہداءمنایا گیا تاہم ابھی تک کی روایت کو توڑتے ہوئے یہ پہلی بار ہے کہ جب ریاست کے حاکمِ اعلیٰ نے مزارِ شہداءپر حاضری نہیں دی۔اتنا ہی نہیں بلکہ ریاست کے چیف سکریٹری نے ایک دن قبل ہی ایک حکم نامہ جاری کرواکے عام تعطیل کے باوجود سبھی ایڈمنسٹریٹیو سکریٹریز کو انکے ساتھ میٹنگ کیلئے سکریٹریٹ میں موجود رہنے کی ہدایت دی تھی۔

بزرگ راہنما سید علی شاہ گیلانی کی قیادت والی مشترکہ مزاحمتی قیادت کی کال پر اب کی بار بھی یومِ شہداءکے موقعہ پر پوری وادی میں مکمل ہڑتال رہی جبکہ سرکاری انتظامیہ نے سرینگر کے پائین شہر میں تاریخی جامع مسجد کے بغل میں واقعہ مزارِ شہداءاور آس پڑوس کے علاقہ میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کی تھیں۔چناچہ اس دن ریاست کے وزیر اعلیٰ یا گورنر،جو بھی وقت کے حاکمِ اعلیٰ ہوں،اور مین اسٹریم کی سبھی سیاسی جماعتوں کے لیڈران شہداءکو خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے مزار پر حاضری دینے کیلئے آتے ہیں لہٰذا مقامی آبادی کو گھروں تک محدود کرکے رکھا جاتا ہے تاکہ وہ احتجاجی مظاہرے نہ کرسکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا جبسکیں ۔اب کی بار بھی سرکاری انتظامیہ نے سکیورٹی کے سخت انتظامات کرتے ہوئے پائین شہر میں لوگوں کی آزادانہ نقل و حمل کو ناممکن بنادیا تھا اورسارا شہر ویران پڑا تھا تاہم جگہ جگہ سرکاری اہلکار تعینات نظر آرہے تھے۔مزاحمتی جماعتوں کے قائدین کو اب کی بار بھی یہاں آنے سے روکنے کیلئے جیلوں یا انکے گھروں میں نظربند کئے رکھا گیا تھا۔

چیف سکریٹری،جو غیر ریاستی کارڈر کے آئی اے ایس افسر ہیں اور ریاست میں گورنر راج نافذ ہونے کے بعد یہاں بھیجے گئے ہیں،نے چھٹی کے باوجود بھی سبھی ایڈمنسٹریٹیو سکریٹریز کو انکے ساتھ میٹنگ کیلئے موجود رہنے کی ہدایت جاری کروائی تھی۔

وادی کے سبھی علاقوں سے وہاں مکمل ہڑتال رہنے کی اطلاعات ہیں اور معلوم ہوا ہے کہ چھوٹے ،بڑے سبھی بازاروں کے علاوہ کاروباری ادارے و نجی دفاتر بند رہے جبکہ سرکاری تعطیل ہونے کی وجہ سے سبھی سرکاری و نجی اسکول بھی بند تھے اور سڑکوں پر سے عام ٹرانسپورٹ غائب تھا۔

13 جولائی 1931 ءکو سنٹرل جیل سرینگر کے باہر ڈوگرہ پولیس کی فائرنگ میں 22 کشمیر مارے گئے تھے اور تب سے مسلسل جموں وکشمیر میں اس دن کو سرکاری سطح پر ”یومِ شہدائ“ کے بطور پر منایا جاتا ہے اور اس دن ریاست میں عام تعطیل رہتی ہے۔ اس تاریخی دن کشمیری عوام عبدالقدیر خان نامی ان شخص کا مقدمہ سننے کیلئے سنٹرل جیل کے باہر جمع ہوئے تھے کہ جنہوں نے ایک جذباتی تقریر میں کشمیریوں کو ڈوگرہ شاہی کے خلاف بغاوت کرنے کا حوصلہ دیکر انہیں اپنا گرویدہ بنالیا تھا۔خان کو اسی تقریر کی پاداش میں ڈوگرہ پولس نے گرفتار کر لیا تھااور پھر جب سنٹرل جیل میں انہیں سزائے موت سنائے جانے کی خبر اڑی تو کشمیریوں نے وہاں پہنچ کر انتظامیہ سے سب کے سامنے مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ۔تاریخ بتاتی ہے کہ جب وقت کے ایک جج سنٹرل جیل میں داخل ہونے لگے باہر جمع ہجوم نے انسے سب کے سامنے مقدمہ سننے کی درخواست کی تاہم انہوں نے پولس کو لوگوں پر گولی چلانے کا حکم دیکر ایک کے بعد ایک 22افراد کو شہید کروادیا ۔13 جولائی کشمیر کی گذشتہ 86برسوں کی تاریخ کا واحد ایسا دن ہے جس کو سبھی مکتب ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی جماعتیں مناتی آئی ہیں۔اس دن نہ صرف سرکاری سطح پر مزار شہدائ، واقع خواجہ نقشبند صاحب خواجہ بازارنوہٹہ ،پر ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے بلکہ یہاں حزبِ اقتداراورحزبِ اختلاف کے لیڈروں کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔

چونکہ ابھی ریاست میں گورنر راج نافذ ہے لہٰذا پروٹوکول کے حساب سے گورنر این این ووہرا کو مزارِ شہداءپر حاضر ہوکر شہیدوں کی قبروں پر گلپوشی کرنا تھی تاہم وہ نہیں آئے بلکہ سرکار کی جانب سے گورنر کے ایڈوائزر،ڈویژنل کمشنر کشمیراور چیف سکریٹری نے یہ فریضہ انجام دیا۔یہ غالباََ پہلی بار تھا کہ جب سربراہِ ریاست  نے مزارِ شہداءپر حاضری نہیں دی۔ابھی تک فقط بی جے پی نے پی ڈٰ پی کے ساتھ اقتدار میں رہنے کے باوجود 2015 ءسے مسلسل تک برس تک شہدائے کشمیر سے متعلق سرکاری تقریب کا بائیکاٹ کیاتھا۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی شخصی اور مطلق العنان ڈوگرہ حکومت میں سنہ 1931 ءمیں 13 جولائی کے دن مارے گئے 22 کشمیری شہید نہیں ہیں۔

جموں میں بھاجپا کی حامی وکلاءتنظیم بارایسوسی ایشن نے گذشتہ روز ایک متنازعہ بیان جاری کرتے ہوئے یومِ شہداءکی تعطیل کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور آج عدالت آکر ضرورتمندوں کیلئے قانونی مشورے کا مفت ورکشاپ منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے 13جولائی کو عام تعطیل کی بجائے ورکنگ ڈے قرار دئے جانے کے مطالبے کو اُجاگر کیا جائے گا۔اس کے ساتھ ساتھ ریاست کے چیف سکریٹری،جو غیر ریاستی کارڈر کے آئی اے ایس افسر ہیں اور ریاست میں گورنر راج نافذ ہونے کے بعد یہاں بھیجے گئے ہیں،نے چھٹی کے باوجود بھی سبھی ایڈمنسٹریٹیو سکریٹریز کو انکے ساتھ میٹنگ کیلئے موجود رہنے کی ہدایت جاری کروائی تھی۔جموں کشمیر سرکار کے محکمہ انتظامِ عامہ یا جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کئے کئے” میٹنگ نوٹس“زیر نمبر GAD(ADM)26/2018-Vبتاریخ12-07-2018 میں سبھی ایڈمنسٹریٹیو سکریٹریز کو چیف سکریٹری کے ساتھ میٹنگ کیلئے موجود رہنے کیلئے کہا گیا تھا۔

یہ غالباََ پہلی بار تھا کہ جب سربراہِ ریاست  نے مزارِ شہداءپر حاضری نہیں دی۔ابھی تک فقط بی جے پی نے پی ڈٰ پی کے ساتھ اقتدار میں رہنے کے باوجود 2015 ءسے مسلسل تک برس تک شہدائے کشمیر سے متعلق سرکاری تقریب کا بائیکاٹ کیاتھا۔

دریں اثنا سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی،عمر عبداللہ،عوامی اتحاد پارٹی کے لیڈر انجینئر رشید اور دیگر کئی سیاستدانوں نے مزارِ شہداءپر حاضری دی اور گورنر کی جانب سے تقریب میں شریک نہ ہونے کیلئے انکی شدید تنقید کی۔عمر عبداللہ نے کہا کہ اس تقریب کی اہمیت اس حد تک کم کردی گئی ہے کہ ریاست کے حاکم اعلیٰ کی جگہ ڈویژنل کمشنر کو تقریب میں شامل ہونے کی ذمہ داری دی گئی ہے جبکہ گورنر تو دور انکے کسی مشیر تک نے اس تقریب میں شامل ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔انجینئر رشید نے چیف سکریٹری پر ریاست میں آر ایس ایس کا ایجنڈا چلانے کیلئے تعینات ہونے کا الزام لگایا اور کہا کہ کشمیریوں کی خود مختاری پہلے ہی چھینی جا چکی ہے اور اب بچی کھچی نشانیوں پر بھی ڈھاکہ ڈالتے دیکھا جاسکتا ہے جسے انہوں نے نا قابلِ قبول بتایا۔

یہ بھی پڑھئیں

یومِ شہداءپر(جموں) بار کا متنازعہ بیان سرکار کا مشکوک آرڈر

Exit mobile version