گجرات میں ایک 24 سالہ نوجوان نے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اپنے دیوتا کی خوشنودی کی خاطر اپنی زبان کاٹ دی۔
ذرائع کے مطابق یہ واقعہ گجرات کے بنسکنتھا ضلعے کے تعلقہ سوئیگم میں پیش آیا۔
وویک شرما جن کا تعلق مدھیہ پردیش کے مورینا ضلعے سے ہے، سوئیگم میں آٹھ دیگر مجسمہ سازوں کے ساتھ مل کر بھاوانی ماتا کے مندر کے توسیعی منصوبے پر کام کررہے تھے۔
وویک اپنے بھائی سمیت دیگر افراد کے ساتھ اس مندر میں گذشتہ دو مہینے سے فرائض انجام دے رہے تھے۔
شرما کے ساتھی برجیش سنگھ نے پولیس کو بتایا کہ وویک کالی ماتا سے عقیدت رکھتا تھا اور اپنے دیوتا کے نام کے نعرے لگاتا رہتا تھا۔
سنیچر کی رات وہ مارکیٹ تک جانے کا کہہ کر مندر سے نکلا لیکن واپس نہیں آیا۔
اس کے بھائی نے اسے فون کیا لیکن دوسری جانب سے فون کا جواب دینے والی آواز وویک کی نہ تھی۔ فون پر موجود شخص نے بتایا کہ وویک نے دیشوری مندر میں اپنی زبان کاٹ دی ہے۔
وویک کے خلاف درج کرائی گئی شکایت میں کہا گیا تھا کہ اس نے ایسا طیش میں آکر کیا تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ اس (وویک) کا خیال تھا کہ زبان کاٹ دینے سے نادیشوری ماتاجی کی خوشنودی ملے گی اور کورونا وائرس ختم ہوجائے گا۔
سوئیگم کے سب انسپیکٹر ایچ ڈی پارمر نے بتایا کہ ‘گذشتہ کچھ دنوں سے وویک مدھیہ پردیش میں اپنے آبائی گاؤں جانے کا خواہش مند تھا مگر لاک ڈاون کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ آج اس نے جذبات میں آکر اپنی زبان کاٹ ڈالی۔’
انہوں نے مزید بتایا ’ہمیں وہ مندر کے احاطے میں اپنے ہاتھ میں زبان پکڑے بے ہوشی کی حالت میں لیٹا ہوا ملا۔‘
بھارتی میں توہم پرستی کی تاریخ پُرانی ہے اور زمانے کے ترقی کرنے کے باوجود اس میں کوئی زیادہ فرق نہیں آیا ہے۔ابھی چند دن قبل ملک کی کئی مذہبی جماعتوں کے سادھوؤں کو ’کرونا شانت ہو‘ کے نعرے لگاتے ہوئے جلوس نکالتے دیکھا گیا ہے جبکہ اس طرح کی دیگر کئی عجیب حرکاٹ کی کئی ویڈیوز وائرل ہیں۔