سرینگر//
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق ویسٹ انڈیز کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میچ کے اختتام پر بین الاقوامی کرکٹ کو الوداع کہہ رہے ہیں۔کرکٹ میں کریئرکے اختتام پر انکے کیا جذبات ہیں اور میدان سے باہر جاکر انکا کیا کرنے کا ارادہ ہے،ان سب باتوں پر انہوں نے ایک انٹرویو میں بولا ہے جسکے اقتباسات پیش ہیں:
اپنے اوپر ہونے والی تنقیدپرانہوں نے کہا ہے:
”ہر انسان کے جذبات ہوتے ہیں اور جب تنقید اخلاقی حد پار کر جائے اور ذاتیات پر ہونے لگے تو ظاہر ہے غصہ آتا ہے۔ کہنے والے یہ نہیں سوچتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں کسی کو دکھ نہیں دینا چاہیے۔ یہ باتیں سب کرتے ہیں لیکن اس پر عمل کوئی نہیں کرتا۔ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر تنقید کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ کس کو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ مجھے اپنے کریئر میں ہمیشہ اس طرح کی صورتحال سے گزرنا پڑا ہے اس کے نتیجے میں میری فیملی کو بھی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا رہا ہے جس کا مجھے بہت دکھ ہے۔ہمارے ٹی وی چینلز کو اپنی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ جس طرح کرکٹرز کی بعض اوقات کردار کشی ہوتی ہے اور ان کی نجی زندگی کو اچھالا جاتا ہے ایسا نہ ہو کہ والدین اپنے بچوں کو سپورٹس میں بھیجنا بند کر دیں“۔
عام زندگی میں بھی پرسکون رہتا ہوں:
”میں جس طرح کرکٹ کے میدان میں نظر آتا ہوں عام زندگی میں بھی اسی طرح ہوں۔ میں بہت زیادہ اور بہت جلدی ردعمل کا اظہار نہیں کرتا۔بالکل نارمل رہتا ہوں اور اپنے معاملات ہلکے پھلکے انداز میں نمٹاتا ہوں“۔
فلاحی کام کرنے کی خواہش رکھتا ہوں:
”میانوالی کے لوگ ذہنی اور جسمانی طور پر بہت مضبوط ہیں۔وہاں کے لوگ زندگی کے مختلف شعبوں میں اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں لیکن یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ وہاں بنیادی ضرورتوں کا ڈھانچہ نہیں ہے جس میں تعلیم صحت اور کھیل شامل ہیں۔وہاں کے نوجوان کھیلوں کے بڑے شوقین ہیں لیکن افسوس کہ کرکٹ کا ایک بھی مناسب گراو¿نڈ نہیں ہے۔میری خواہش ہے کہ میں اپنے علاقے میں تعلیم صحت اور کھیل کی حالت بہتر کرنے میں اپنا کچھ کردار ادا کر سکوں“۔
پُرانے دوستوں کی یاد ستاتی ہے:
”بین الاقوامی کرکٹ کی بے پناہ مصروفیات کے سبب بہت کم میانوالی جانے کا موقع مل سکا ہے جس کی وجہ سے پرانے دوستوں سے بھی ملنے کا موقع برائے نام ہی ملا ہے۔ لیکن یہ وہ سچے دوست ہیں جن کی دوستی کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔میں نے اپنے دوستوں کو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میری طرف سے معذرت کیونکہ مجھے پاکستانی ٹیم پر اپنی توجہ رکھنی ہے۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ پرانی یادوں کو بہت زیادہ محسوس کرتا ہوں اور ریٹائرمنٹ کے بعد اب ان تمام لوگوں سے دوبارہ ملوں گا جن سے ابھی رابطہ نہیں ہے۔ان کے ساتھ وقت گزاروں گا پرانی یادوں کو پھر سے تازہ کروں گا۔ اپنے دوستوں کے ساتھ فلاحی کام کرنے کا بھی ارادہ ہے“۔
مجھ پر میری والدہ کا بڑا اثرہے:
”میری کردار سازی میں میری والدہ کا بہت اہم کردار ہے۔ میں نویں جماعت میں تھا جب میرے والد کا انتقال ہوا تھا جس کے بعد میری والدہ نےمیری تعلیم وتربیت کی۔ماموں اور چچا نے بھی بہت ساتھ دیا۔جب آپ میں شعور آتا ہے تو آپ کو اپنی ذمہ داری کا خود بھی احساس ہوتا ہے اور اسی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے میں نے ایم بی اے کیا۔پھر کرکٹ کا شوق حاوی ہوگیا اور مجھے اپنا پروفیشن تبدیل کرنا پڑا اور کرکٹ کو اپنا لیا“۔
کریئر کے یادگار لمحات:
”پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی رینکنگ میں پہلے نمبر پر آنا اور عالمی نمبر ایک کے گرز (میس) کا پاکستان آنا میرے کریئر کا سب سے یادگار لمحہ تھا۔انگلینڈ اور آسٹریلیا کو متحدہ عرب امارات میں وائٹ واش کرنا، انگلینڈ کے خلاف لارڈز اور اوول کے میدان میں جیتنا، جنوبی افریقہ کو اسی کی سرزمین پر ون ڈے سیریز میں ہرانا۔ بھارت میں ون ڈے سیریز جیتنا یہ چند ایسی فتوحات ہیں جو میں بھول نہیں سکتا“۔
(بشکریہ بر ٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن)