گاندربل // سرینگر کے قریبی ضلع گاندربل کشمیر میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی وردی کے جیسے کپڑے پہن کرکٹ کھیلنے اور پاکستانی ترانہ گنگنانے کے ”جُرم“ میں گرفتار کی جاچکی پوری کی پوری ٹیم اب بھی پولس حراست میں ہے اور پولس نے پوچھ تاچھ کو جاری بتایا ہے۔اس دوران علاقے میں غم و اندوہ کی لہر دوڑی ہوئی ہے اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ والدین بھی پریشانی اور خوف میں مبتلا ہیں۔گاندربل کے پولس تھانہ کے باہر آج بڑی بھیڑ لگی ہوئی تھی اور گرفتار نوجوانوں کے رشتہ دار انکی رہائی کے لئے تگ و دو کرتے نظر آرہے تھے۔
بشیر احمد نامی ایک شخص نے بتایا کہ گرفتار شدگان میں انکے دو قریبی رشتہ دار شامل ہیں اور وہ انہی کے لئے گھر سے کھانا لیکر آئے تھے۔نشیر احمد نے بتایا کہ انہوں نے گرفتارشدگان کی رہائی کے لئے پولس کے سامنے منتیں کیں لیکن پولس کا کہنا ہے کہ معاملہ درج ہوچکا ہے اور اب ان نوجوان کو عدالت سے ہی رہائی مل سکتی ہے۔ادھیڑ عمر کے ایک شخص نے بتایا کہ انکا کالج میں پڑھنے والا بیٹا بھی تھانے میں بند ہے اور انہیں سمجھ میں ہی نہیں آتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو ایک انوکھے الزام سے کیسے بچا پائیں گے۔یاد رہے کہ گاندربل کے مضافات میں گزشتہ دنوں مقامی لڑکوں نے ایک کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا تھا جس میں شامل ایک ٹیم کے کھلاڑیوں نے پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کے جیسی سبز وردی پہنی تھی اور میچ شروع ہونے سے قبل انہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ بھی گنگنایا۔چناچہ اس واقعہ کی ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوگئی جسکے فوری بعد پولس نے حرکت میں ویڈیو میں نظر آنے والے لڑکوں کی پہچان کرکے کئی جگہوں پر چھاپے مارے اور ان سبھی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ وادی کشمیر میں پیش آںے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔
پولس کا کہنا ہے کہ معاملے کی گہرائی سے تحقیقات جاری ہے اور یہ دیکھا جارہا ہے کہ ان کھلاڑیوں نے خود ہی پاکستانی ٹیم کی مشابہت کی ہے یا یہ کوئی اور مقصد سے کیا گیا کام ہے۔معلوام ہوا ہے کہ ان لڑکوں سے پوچھ تاچھ جاری ہے اور یہ بات سامنے آنے ہے کہ ٹورنامنٹ کے منتظمین میں ایک کا تعلق سرینگر کے پائین علاقہ سے ہے جہاں آئے دنوں علیٰحدگی پسند نوجوان سنگبازی کرتے نظر آتے ہیں اور پاکستانی پرچم اٹھائے جلوس نکالتے رہتے ہیں۔پولس کا تاہم ماننا ہے کہ گرفتار شدگان کا ابھی تک کوئی مجرمانہ ریکارڈ سامنے نہیں آیا ہے اور ابھی تک کی تحقیقات کے مطابق وہ کسی خاص گروہ یا تنظیم وغیرہ کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں اور ان میں سے کسی پر بھی ماضی میں کسی علیٰحدگی پسند سرگرمی کا کوئی الزام نہیں ہے۔البتہ پولس اس خدشے کو دور کرنا چاہتی ہے کہ اس ٹورنامنٹ کے پیچھے کوئی بُری نیت یا کوئی تخریبی سوچ کارفرما تو نہیں رہی ہے۔پولس میں ذرائع کا کہنا ہے کہ واقعہ کی تحقیقات ابھی جاری ہے لہٰذا ابھی ان لڑکوں کو رہا نہیں کیا جاسکتا ہے۔بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کی مزید تحقیقات کے لئے نئی دلی سے قومی تفتیشی ایجنسی کی ایک ٹیم وادی میں متوقع ہے جو ان دیہاتی کھلاڑیوں سے پوچھ تاچھ کر سکتی ہے۔
دلچسپ ہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت پر پیش آیا ہے کہ جب سرینگر ،بڈگام اور گاندربل پر مشتمل پارلیمانی نشست پر اگلے ہفتے ضمنی انتخاب کے تحت ووٹ ڈالے جانے والے ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف کشمیری نوجوانوں کو سنگبازی اور علیٰحدگی پسند احتجاجی مظاہروں سے دور رکھنے کے لئے کھیل کود کو فروغ دئے جانے کے لئے کروڑوں روپے اڑائے جارہے ہیں تو دوسری جانب گاوں کے نا سمجھ بچوں کو محض اس لئے گرفتار کرکے انکے کیرئر کو خراب کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے نا سمجھی اور کھیل کھیل میں ایک خاص رنگ کے کپڑے پہنے تھے۔گرفتار شدہ کھلاڑیوں کے رشتہ داروں کا کہنا تھا ”اب تو ہمارے بچے کرکٹ کھیلنے سے بھی ڈریں گے،کیا پتہ کب کونسے کپڑے، کلام یا کونسی چیز جُرم ٹھہرے“۔