وادیٔ کشمیر کے نوجوانوں میں اچانک ’’ہارٹ اٹیک‘‘کے واقعات کو تشویشناک حد تک بڑھتے دیکھ کر محکمۂ صحت باالآخر ہاتھ پیر مارنے لگا ہے۔محکمہ نے طویل المدتی اور قلیل المدتی حکمتِ عملی مرتب کی ہے جسکے تحت ضلع اور اس سے نیچے کی سطح کے اسپتالوں اور صحت مراکز میں سہولیات دستیاب کرائے جارہے ہیں۔
ایک طرف طبی ماہرین اِس پُراسرار سلسلہ کی اصل وجہ تلاش کرنے میں ناکام ہیں تو دوسری جانب مختلف علاقائی اسپتالوں میں مناسب سہولیات کی عدم دستیابی اموات کی شرح میں اضافہ کر رہی ہے
محکمۂ صحت کشمیر کی نظامت کی جانب سے جاری کردہ ایک حکمنامہ میں ڈائریکٹر نے کئی کمیٹیاں قائم کی ہیں جو اُنکے تحت آںے والے اسپتالوں اور صحت مراکز میں پہلے سے قائم ایمرجنسی رومز (ای آر رومز) کی انتظامیہ اور کارکردگی کا جائزہ لینے کے علاوہ اسے بہتر بنانے کی تجاویز دیں گی اور اقدامات کریں گی۔حکمنامہ کے مطابق ایک ایک کارڈیالوجِسٹ،ایک سرجن اور دو انستھیسیالوجِسٹس پر مشتمل ایک مرکزی کمیٹی صحت مراکز کے ای آر رومز کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے علاوہ انہیں بہتر بنانے اور ان میں کام کرنے والے ڈاکٹروں و دیگر طبی عملہ کی تربیت وغیرہ کا انتظام کرنے کے علاوہ وقت وقت پر نظامتِ صحت کو تجاویز اور مشورے دیا کرے گی جبکہ اس کمیٹی کے تابع دیگر کئی سب کمیٹیز ہونگی جو تجاویز و مشوروں کو روبہ عمل لانے کا کام کریں گی۔
محکمۂ صحت کی جانب سے یہ اقدام ان حالات میں کیا جارہا ہے کہ جب وادیٔ کشمیر میں نوجوان مردوں اور عورتوں کے ہارٹ اٹیک کا شکار ہوکر فوت ہونے کے واقعات ایک خوفناک سلسلہ بنے ہوئے ہیں۔ماہ بھر کے عرصۂ مختصر میں قریب تین درجن افراد حرکتِ قلب بند ہونے کے بہانے لقمۂ اجل بن چکے ہیں جن میں نوجوان مردو زن ہی نہیں بلکہ کئی بچے اور بچیاں بھی شامل ہیں۔
ایک طرف طبی ماہرین اِس پُراسرار سلسلہ کی اصل وجہ تلاش کرنے میں ناکام ہیں تو دوسری جانب مختلف علاقائی اسپتالوں میں مناسب سہولیات کی عدم دستیابی اموات کی شرح میں اضافہ کر رہی ہے۔قابلِ ذکر ہے کہ ابھی دو ایک ماہ قبل یہاں کے ایک نوجوان صحافی مدثر علی کے حرکتِ قلب بند ہونے کے بہانے فوت ہونے پر انکشاف ہوا تھا کہ کس طرح وسطی کشمیر میں اُنکے آبائی چرار قصبہ میں مناسب طبی سہولیات کی عدمِ دستیابی کی وجہ سے اُنہیں سرینگر منتقل کرنا پڑا تھا اور اس دوران ’’گولڈن آؤر‘‘ضائع ہوا اور سبھی امکانات کے باوجود بھی نوجوان صحافی کو بچایا نہ جاسکا۔
حالانکہ قریب چھ سال قبل تقریباََ سبھی ضلع و سب ضلع اسپتالوں میں امراضِ قلب کی ایمرجنسیز کو سنبھالنے کیلئے ای آر رومز قائم کئے تو گئے تھے تاہم بعدازاں انہیں اچھی طرح استعمال کیا گیا اور نہ انہیں وہ افرادی یا آلاتی قوت فراہم نہیں کی گئی کہ جس سے یہ اقدام شرحِ اموات میں کمی کا باعث بن سکتے تھے۔محکمۂ صحت میں ذرائع کا کہنا ہے ’’اُسوقت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سلیم الرحمٰن نے ذاتی دلچسپی سے سیو ہارٹ انیشیٹیو کے تحت سبھی اسپتالوں میں ای آر رومز قائم کرائے تھے لیکن اُنکا تبادلہ ہونا تھا کہ یہ (ای آر) رومز اسپتالوں میں بے کار کونے بلکہ کوڈ دان بن کے رہ گئے‘‘۔تاہم ہارٹ اٹیک کے معمول بننے سے محکمۂ صحت گہری نیند سے بیدار ہونے پر مجبور ہوگیا بلکہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ صحافی مدثر علی کی افسوسناک موت کی تحقیقات میں سامنے آئی باتوں کی وجہ سے محکمہ نے بعض ’’دکھاوے کے‘‘ اور بعض سنجیدہ اقدامات کرنے کی ٹھان لی ۔
ایمرجنیس رومز کی دیکھ ریکھ اور انکی ترقی کیلئے بنائی گئی چار رُکنی کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر مسعود رشید نے بتایا ’’ہم چاہتے ہیں کہ مضافات کے اسپتالوں میں ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ اس حد تک فعال اور باصلاحیت ہو کہ جو شرحِ اموات کو کم کرنے میں مددگار ہو۔ان ای آر رومز میں کسی بھی طرح کی ایمرجنسی آسکتی ہے لیکن ہاں امراضِ قلب ،جیسے ہارٹ اٹیک وغیرہ،کے مریضوں کو سنبھالنے کیلئے خاص انتظامات کئے جانے کی کوشش کی جائے گی۔اس طرح کے مریضوں کو اگر مسئلہ پیدا ہوتے ہی بہتر علاج مہیا ہوجائے تو انکے بچنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں‘‘۔
اٹل ڈلو کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر کو صحت شعبہ کیلئے عالمی بنک کی جانب سے سے 367کروڑ روپے کا منصوبہ ملا ہوا ہے جسکے تحت لازمی مشینری اور آلہ جات کے حصول کیلئے 40 کروڑ روپے کا آرڈر دیا گیا ہے۔
محکمۂ صحت کے اعلیٰ ترین افسر ،فائنانشل کمشنر، اٹل ڈلو کا کہنا ہے کہ نظامتِ صحت کشمیر کے ان اقدامات سے بڑھکر حکومت سبھی ضلع اسپتالوں کو جدید تیکنالوجی اور افرادی قوت سے لیس کرنے کے ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے۔اُنکا کہنا ہے کہ اگلے دو یا تین ماہ کے اندر تقریباََ سبھی ضلع اسپتالوں میں جدید ترین اور اپنی نوعیت کے انتہائی نگہداشت والے وارڈ یا آئی سی یو کام کر رہے ہونگے۔اُنکا کہنا ہے ’’ایسے میں ایک تو لوگوں کو بہتر علاج کیلئے قریب ترین سہولیات دستیاب ہونگی اور ٹریشری کئیر اسپتالوں پر بوجھ کم ہوگا‘‘۔ اٹل ڈلو کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر کو صحت شعبہ کیلئے عالمی بنک کی جانب سے سے 367کروڑ روپے کا منصوبہ ملا ہوا ہے جسکے تحت لازمی مشینری اور آلہ جات کے حصول کیلئے 40 کروڑ روپے کا آرڈر دیا گیا ہے۔محکمۂ صحت کے ایک اور افسر کا کہنا ہے ’’ہم چاہتے ہیں کہ ضلع سطح پر تقریباََ وہ سبھی سہولیات دستیاب ہوں کہ جو ٹریشری کئیر اسپتال میں دستیاب ہوتی ہیں‘‘۔البتہ اُنکا کہنا ہے کہ اس ’’مشن‘‘ کے حوالے سے علاقائی اسپتالوں میں تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی دستیابی کا مسئلہ درپیش ہوسکتا ہے ۔(بشکریہ راشٹریہ سہارا)
یہ بھی پڑھیئے