موبائل آپریٹنگ سسٹمز فراہم کرنے والے دو معروف اداروں گوگل اور ایپل نے سمارٹ فون کے ذریعے کورونا وائرس کی ’کنٹیکٹ ٹریسنگ‘ کے ٹول سے متعلق مشترک منصوبے کا اعلان کیا ہے جو ممکنہ طور پر لوگوں کو اس وقت خبردار کر سکے گا جب وہ کورونا کے شکار کسی فرد کے قریب جانے اور خطرے کے نشانے پر ہوں گے۔
دونوں بڑے ادارے سمارٹ فونز پر میسر لوکیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے کورونا وائرس کی وبائی صورت حال میں اس پر قابو پانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔
اس اقدام کے تحت ایپل اور گوگل کے سافٹ ویئر استعمال کرنے والے سمارٹ فونز بلیو ٹوتھ وائرلیس ٹیکنالوجی کی مدد سے مشترکہ طور پر تیار کیے گئے نظام سے معلومات کا تبادلہ کریں گے۔
دونوں کمپنیوں کا منصوبہ ہے کہ آئندہ ماہ تک ایسا مشترکہ سافٹ ویئر انٹرفیس جاری کیا جائے جو فونز کے آپریٹنگ سسٹمز سے قطع نظر صارفین کو بروقت خطرے سے آگاہ کر سکے۔
دونوں کمپنیوں کی جانب سے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ایپل اور گوگل میں ہم سب یقین رکھتے ہیں کہ اس سے قبل اکٹھے کام کرکے دنیا کے ایک بڑے مسئلے کو حل کرنے کا ایسا اہم مرحلہ نہیں آیا تھا۔‘
یہ اشتراک ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومتیں موبائل فونز کے ذریعے کورونا وائرس کے مریضوں کو تلاش کر کے دوسروں کو ان سے محفوظ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کوششوں کے دوران صارفین کی پرائیویسی اور سماجی آزادیوں سے متعلق تشویش بھی بڑھی ہے۔
امریکی صدر ایک بریفنگ کے دوران یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت کنٹیکٹ ٹریکنگ کے معاملے میں تعاون پر خصوصی توجہ دے گی۔
ذاتی ڈیٹا عام کر سکنے والے منصوبے سے متعلق تشویش کے ضمن میں ایپل اور گوگل کا کہنا ہے کہ ’پرائیویسی، شفافیت اور اجازت‘ مشترکہ منصوبے کے دوران اہم ترجیحات رہے ہیں۔
Contact tracing can help slow the spread of COVID-19 and can be done without compromising user privacy. We’re working with @sundarpichai & @Google to help health officials harness Bluetooth technology in a way that also respects transparency & consent. https://t.co/94XlbmaGZV
— Tim Cook (@tim_cook) April 10, 2020
ایپل کے چیف ایگزیکٹو افسر ٹم کاک کا کہنا ہے کہ ’کنٹیکٹ ٹریسنگ کے ذریعے کورونا وائرس کا پھیلاؤ کم کیا جا سکے گا اور اس دوران صارفین کی پرائیویسی بھی متاثر نہیں ہو گی۔’
موجودہ صورت حال میں سمارٹ فونز کے ذریعے کورونا وائرس کا شکار لوگوں کی نقل و حرکت دیکھنے کے لیے تیار کردہ ٹول کے جمع کردہ ڈیٹا کے ممکنہ غلط استعمال سے متعلق تشویش بھی نمایاں ہے۔
امریکی سول لبرٹی یونین کی نمائندہ جینیفر گرینک کا کہنا ہے کہ ’کٹیکٹ ٹریسنگ کی کوئی بھی ایپلیکیشن اس وقت تک موثر نہیں ہو سکتی جب تک طبی نظام تک فوری، بلامعاوضہ اور وسیع رسائی میسر نہ ہو۔ لوگوں نے اعتماد نہ کیا تو بھی یہ نظام مفید نہیں رہ سکتے۔‘
ان کے مطابق لوگ صرف اسی صورت میں ایسے نظام پر بھروسہ کریں گے جب یہ پرائیویسی کو تحفظ دیں، رضاکارانہ بنیادوں پر ہوں اور ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کے بجائے انہیں انفرادی ڈیوائسز تک ہی محدود رکھیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایپل اور اینڈرائڈ نقل و حرکت سے متعلق ڈیٹا کی بنیاد پر کورونا وائرس سے رابطے میں آنے والے افراد کو سمارٹ فون کی مدد سے مشترکہ طور پر شناخت کر سکتے ہیں۔
کری ایٹو سٹریٹیجسٹ اور تجزیہ کار کیرولینا میلانسی کے مطابق ایپل کی جانب سے صارفین کی پرائیویسی کو آئی فونز کی فروخت کی بنیاد بنایا جاتا رہا ہے اور اب وہ اسی خوبی کو کورونا وائرس کے خلاف مشترک منصوبے کے لیے بروئے کار لا رہے ہیں۔ ایپل کی جانب سے پرائیویسی سے متعلق اپنی مہارت کو پیش کرنا اچھا عمل ہے۔
ایک اور تجزیہ کار پیٹرک مورہیڈ کا کہنا تھا کہ نہ ہی ایپل اور نہ گوگل یہ یقین دہانی کرا سکتے ہیں کہ کورونا وائرس سے مقابلے کے لیے جمع کیے جانے والے ڈیٹا کے ساتھ آئندہ کیا ہو گا۔ ان دو کمپنیوں کے اعداد وشمار کو اکٹھا کر کے موبائل ڈیٹا کا سو فیصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔
جنوبی کوریا، سنگاپور، اسرائیل اور دیگر ملکوں کی جانب سے کورونا وبا کے خلاف کی گئی کوششوں میں ٹیکنالوجی یا ڈیجیٹل کنٹیکٹ ٹریسنگ کا کردار نمایاں رہا ہے۔
قانون کے پروفیسر اور پرائیویسی کے موضوع کے محقق ویان کیلو نے سینیٹ کے سامنے رواں ہفتے دیے بیان میں کہا تھا کہ ’میں ڈیجیٹل کنٹیکٹ ٹریسنگ کے پس پردہ موجود وجہ کو سمجھ سکتا ہوں۔ لیکن وائرس کے خلاف مقابلے میں کامیابی غیرتصدیق شدہ ہے جب کہ نادانستہ طور پر ہی سہی لیکن اس کے نقصانات، غلط استعمال اور پرائیویسی سمیت سماجی آزادیوں پر اس کا اثر واضح ہو گا۔‘(بشکریہ اردو نیوز)