سرینگر// 72 ویں یومِ آزادی کے موقع پربدھ کو وادی¿ کشمیر میںبزرگ راہنما سید علی شاہ گیلانی کی قیادت والی” مشترکہ مزاحمتی قیادت“ کی کال پر مکمل اور ہمہ گیر ہڑتال رہی جسکی وجہ سے یہاں معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر رہےں۔تاہم سخت سکیورٹی انتظامات کے بیچ سرکاری سطح پر سرینگر کے علاوہ دیگر سبھی ضلع،سب ڈویژن اور تحصیل ہیڈکوارٹروں پر ترنگا لہرایا گیااور کہیں پر بھی کسی ناخوشگوار واقع کے پیش آنے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
مزاحمتی قائدین نے ہمیشہ ہی کی طرح اب کی بار بھی 15اگست کیلئے عام ہڑتال کی کال دی ہوئی تھی جسکا زبردست اثر دیکھنے کو ملا یہاں تک کہ سرینگر اور وادی کے دیگر علاقوں میں زندگی مفلوج سی ہوکے رہ گئی تھی۔سرینگر میں سبھی چھوٹے بڑے بازار،تجارتی ادارے،اور ٹرانسپورٹ کی سروس بند رہی جبکہ سرکاری چھٹی ہونے کی وجہ سے بنک،سرکاری دفاتر و نیم سرکاری ادارے بھی پوری طرح بند رہے۔
یومِ آزادی کی سب سے بڑی تقریب روایت کے برعکس اب کی بار یہاں کے بخشی اسٹیڈئم،جہاں تعمیراتی کام جاری ہے،کے برعکس ایس کے پارک سونہ وار میں منعقد ہوئی جہاں گورنر این این ووہرا نے سیاستدانوں،بیروکریٹوں اور پولس افسروں و دیگر لوگوں کی موجودگی میں مارچ پاسٹ پر سلامی لی۔اس تقریب کے احسن انعقاد کے لئے وادی بھر میں باالعموم اور سرینگر میں باالخصوص کئی دن پہلے سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔چناچہ آج نہ صرف صبح سویرے سے ہی سرینگر میں ہو کا عالم تھا بلکہ جگہ جگہ پر ناکے بٹھائے گئے تھے اور احتجاجی مظاہروں کے خدشات کے پیشِ نظر کئی مقامات پر سڑکوں پر تار بچھاکر اور گاڑیاں کھڑا کرکے رکاوٹیں ڈالی گئی تھیں۔تقریب کی جگہ کے پاس سے گذرنے والی ایک بڑی سڑک کو سکیورٹی فورسز نے کئی دن پہلے ہی عام لوگوں کیلئے بند کرکے اپنی تحویل میں لیا ہوا تھا جبکہ آج تقریب کے جاری رہنے تک نہ صرف کئی اونچی عمارتوں پر ماہر نشانہ بازوں کو تعینات رکھا گیا تھا بلکہ ہیلی کاپٹر کے ذرئعہ بھی آس پڑوس پر نظر رکھی جا رہی تھی۔تاہم گذشتہ تین دہائیوں سے چلی آرہی ”روایت“کے برعکس اب کی بار سرینگر کے پائین شہر میں کرفیو یا کوئی غیر معمولی پابندیاں نافذ نہیں کی گئی تھیں۔البتہ اہلیانِ وادی کا موڈ صبح سویرے تب خراب ہوگیا کہ جب انہوں نے اپنے موبائل فون بیکار پڑے پائے کیونکہ انتظامیہ نے اب کی بار دورانِ شب ہی موبائل فون کا نظام بے کار کروادیا تھا۔ایک پولس افسر کے مطابق ایسا جنگجووں کی جانب سے حملہ کئے جانے اور اس طرح کے دیگر خدشات کے پیشِ نظر سکیورٹی ماہرین کے کہنے پر کیا گیا تھا۔حالانکہ دوپہر ہوتے ہوتے موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بحال کردی گئی۔
تقریب میں تب کچھ بدمزگی پیدا ہوئی اور سرکاری اہلکاروں کو شرمندگی اٹھانا پڑی کہ جب سی آر پی ایف اور بی ایس ایف کے جوانوں کی جانب سے کلچرل پروگرام پیش کرنے کے دوران آڈیو سسٹم میں تکنیکی خراب پیدا ہوئی اور یہ پروگرام حاضرین کی سماعتوں تک نہیں پہنچ پائے۔
سرینگر کے ایس کے کرکٹ اسٹیڈیم میں گورنر این این ووہرا نے تقریب کی صدارت کی جبکہ اس میں نیشنل کانفرنس کے نائبِ صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ،حال ہی تک وزیرِ اعلیٰ رہیں پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی،انکے نائب وزیر اعلیٰ رہے بھاجپا لیڈر اور اسمبلی کے اسپیکر ڈاکٹر نرمل سنگھ ان پارٹیوں کے کئی چھوٹے بڑے لیڈران،سیول و پولس افسر اور اسکولی بچے موجود رہے۔تقریب میں تب کچھ بدمزگی پیدا ہوئی اور سرکاری اہلکاروں کو شرمندگی اٹھانا پڑی کہ جب سی آر پی ایف اور بی ایس ایف کے جوانوں کی جانب سے کلچرل پروگرام پیش کرنے کے دوران آڈیو سسٹم میں تکنیکی خراب پیدا ہوئی اور یہ پروگرام حاضرین کی سماعتوں تک نہیں پہنچ پائے۔بعدازاں معلوم ہوا ہے کہ ڈویژنل کمشنر کشمیر نے اس بات کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی تحقیقات اور محکمہ کلچرل اکیڈمی کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم دیا ہے۔
مزاحمتی قائدین نے ہمیشہ ہی کی طرح اب کی بار بھی 15اگست کیلئے عام ہڑتال کی کال دی ہوئی تھی جسکا زبردست اثر دیکھنے کو ملا یہاں تک کہ سرینگر اور وادی کے دیگر علاقوں میں زندگی مفلوج سی ہوکے رہ گئی تھی۔سرینگر میں سبھی چھوٹے بڑے بازار،تجارتی ادارے،اور ٹرانسپورٹ کی سروس بند رہی جبکہ سرکاری چھٹی ہونے کی وجہ سے بنک،سرکاری دفاتر و نیم سرکاری ادارے بھی پوری طرح بند رہے۔وادی کے دیگر علاقوں میں بھی مکمل ہڑتال رہنے کی اطلاعات ملی ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پوری وادی میں معمول کی زندگی بری طرح متاثر رہی اور لوگ گھروں کی چہار دیواری کے اندر محدود رہے۔