جنگجو مخالف آپریشن کی مزاحمت ،نوجوان شدید زخمی

فائل فوٹو

شوپیان// جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں جمعہ کو ایک جنگجو مخالف آپریشن کے دوران لوگوں کی طرفسے کی گئی مزاحمت کے بعد فوج کے گولی چلائے جانے سے کئی نوجوان زخمی ہوئے ہیں جن میں سے کم از کم ایک کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔اس دوران جنوبی کشمیر کے ہی پلوامہ ضلع کے ترال قصبہ اور اسکے مضافات میں پولس کی طرفسے کئی سرگرم جنگجووں کے رشتہ داروں کو گرفتار کئے جانے کے خلاف مکمل ہڑتال رہی اور اس علاقے میں معمول کی زندگی متاثر رہی۔

اب یہ معمول بن گیا ہے کہ جہاں کہیں سرکاری فورسز جنگجووں کے خلاف آپریشن کرنے پہنچتی ہیں مقامی لوگ اپنے آپ کی پرواہ کئے بغیر سامنے آکر مزاحمت کرتے ہیں۔اس طرح کی کارروائیوں میں ابھی ایک درجن سے زیادہ عام شہری جاں بحق کئے جاچکے ہیں جبکہ لوگوں نے کئی بار مصور جنگجووں کو بچا کر فوج کے ہتھے چڑھنے سے بچایا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ شوپیاں کے ٹکورہ گاوں میں اسوقت حالات کشیدہ ہوگئے کہ جب فوج کی راشٹریہ رائفلز ،جموں کشمیر پولس اور سی آر پی ایف کے سینکڑوں اہلکاروں نے جنگجووں کی تلاش میں یہاں کا محاصرہ کیا ۔ذرائع نے بتایا کہ جونہی سرکاری فورسز نے گاوں کے ارد گرد گھیرا ڈالا یہاں کے لوگ گھروں سے باہر آکر احتجاجی مظاہرے کرنے لگے۔چناچہ سرکاری فورسز نے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کا استعمال کیا جس سے مشتعل ہوکر لوگوں نے فورسز پر پتھراو کرنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہاں جنگ کا سماں پیدا ہوگیا۔حالات تب اور زیادہ کشیدہ ہوگئے کہ جب فورسز اہلکاروں نے متنازعہ پیلٹ گن چلانے کے علاوہ مظاہرین پر راست فائرنگ کی جس سے کئی افراد زخمی ہوگئے جن میں سے فیاض احمد کوتوال ساکنہ پتروال شوپیان نامی نوجوان کی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔شوپیاں کے ضلع اسپتال میں ذرائع نے بتایا کہ کوتوال کے پیٹ میں گولی لگی ہے اور انکا بہت خون ضائع ہوچکا ہے تاہم انہیں انتہائی نازک حالت میں مزید علاج کیلئے سرینگر منتقل کیا گیا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ فورسز کی کارروائی میں مزید کئی لوگ زخمی ہوچکے ہیں تاہم انکا مقامی طور علاج کیا جا رہا ہے۔

ایک پولس ترجمان نے بتایا کہ علاقے میں جنگجووں کی موجودگی سے متعلق اطلاع ملنے پر یہاں کا محاصرہ کیا گیا تھا تاہم لوگوں نے جنگجووں کا بچاو کرنے کیلئے تشدد کیا۔انہوں نے کہا کہ شرپسندوں نے حالات بگاڑ کر امن و قانون کی صورتحال پیدا کی اور اس بات کی تحقیقات کی جا رہی ہے کہ ایک نوجوان کس طرح شدید زخمی ہوگئے ہیں۔تاہم پولس نے کہا کہ اگرچہ علاقے کا محاصرہ جاری ہے تاہم آخری اطلاعات آنے تک فورسز اور جنگجووں کا آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔

علاقے کے کئی سرگرم جنگجووں کے رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا ہے اور انہی کی رہائی کے خلاف علاقے میں ہڑتال رہی۔

وادی میں اب یہ معمول بن گیا ہے کہ جہاں کہیں سرکاری فورسز جنگجووں کے خلاف آپریشن کرنے پہنچتی ہیں مقامی لوگ اپنے آپ کی پرواہ کئے بغیر سامنے آکر مزاحمت کرتے ہیں۔اس طرح کی کارروائیوں میں ابھی ایک درجن سے زیادہ عام شہری جاں بحق کئے جاچکے ہیں جبکہ لوگوں نے کئی بار مصور جنگجووں کو بچا کر فوج کے ہتھے چڑھنے سے بچایا ہے۔فوجی چیف جنرل بپن راوت نے اسے ایک چلینج قرار دیتے ہوئے اس طرح کی جُرات کرنے والوں کو سخت دھمکیوں سے مرعوب کرنے کی کوشش کی تھی جو مگر ناکام رہی اور لوگوں نے جنگجووں کے بچاو میں آکر خود کو خطرے میں ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ بعض سرکاری ایجنسیوں نے اب یہ بات مان لی ہے کہ جہاں کسی علاقے میں کوئی جنگجو مارے جائیں انکے جنازے میں ہزاروں لوگ شامل ہوجاتے ہیں اور پھر اسی بھیڑ میں سے کچھ نوجوان خالی مورچوں میں بیٹھنے کیلئے آمادہ ہوجاتے ہیں۔

حالات تب اور زیادہ کشیدہ ہوگئے کہ جب فورسز اہلکاروں نے متنازعہ پیلٹ گن چلانے کے علاوہ مظاہرین پر راست فائرنگ کی جس سے کئی افراد زخمی ہوگئے جن میں سے فیاض احمد کوتوال ساکنہ پتروال شوپیان نامی نوجوان کی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔

جنوبی کشمیر کے ہی پلوامہ ضلع کے ترال سب ڈیویژن میں مکمل ہڑتال رہی ۔ذرائع نے بتایا کہ نا معلوم جنگجووں کی جانب سے ایک پولس اہلکار پر گذشتہ دنوں جان لیوا حملہ کئے جانے کے بعد پولس نے علاقے کے کئی سرگرم جنگجووں کے رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا ہے اور انہی کی رہائی کے خلاف علاقے میں ہڑتال رہی۔لوگوں کا کہنا ہے کہ جنگجو نوجوانوں نے اپنا گھر بار چھوڑا ہوا ہے لیکن انکے لواحقین کو ناحق پریشان کیا جا رہا ہے۔انہوں نے پولس کی اس دعویداری کو جھٹلایاکہ گرفتار شدگان جنگجوں کے معاونین ہیں اور انہیں اسی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے۔لوگوں کا الزام ہے کہ جنگجووں کے رشتہ داروں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے۔علاقے میں ہڑتال کی وجہ سے معمول کی زندگی بری طرح متاثر رہی کیونکہ نہ یہاں اسکولوں میں درسو تدریس کا کام ہوا اور نہ ہی بازار کھلے رہے۔علاقے میں عام ٹرانسپورٹ بھی سڑکوں سے غائب رہا تاہم کہیں کہیں پر نجی گاڑیوں کو حرکت میں دیکھا گیا۔

یہ بھی تو پڑھئیں!

بُرہان کی برسی سے قبل کولگام میں قتلِ عام !

Exit mobile version