سرینگر// جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں فوج اور دیگر سرکاری فورسز نے جنگجووں کے ایک ٹھکانے پر شب خون مار کر ایک ساتھ پانچ جنگجووں کو جاں بحق کردیا ہے۔یہ کارروائی شمالی کشمیر کے سوپور میں دو جنگجووں کے مارے جانے کے چند ہی گھنٹوں کے بعد ہوئی ہے کہ جس سے چند گھنٹے قبل کپوارہ میں دو جنگجووں کو اسی طرح مار گرایا گیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ فوج کی44 راشٹریہ رائفلز (آرآر)،جموں کشمیر پولس اور دیگر سرکاری فورسز نے جمعہ کی رات کیلورہ میں چھاپہ مارا جہاں جنگجووں کا ایک گروہ ٹھہرا ہوا تھا۔معلوم ہوا ہے کہ جنگجووں نے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم انہیں موقعہ نہ ملا اور ایک جنگجو ابتدائی فائرنگ میں مارے گئے جبکہ بعدازاں مزید چار جنگجووں کو مار گرایا گیا جسکی ایک فوجی ترجمان اور پولس نے تصدیق کرتے ہوئے جائے واردات سے بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود بر آمد کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس سلسلے میں ابھی مزید تفصیلات،بشمولِ جنگجووں کی شناخت،کا انتظار ہے۔
سرکاری انتظامیہ نے جھڑپ شروع ہوتے ہی حسبِ معمول انٹرنیٹ سروس بند کرانے کے علاوہ جمعہ کیلئے علاقے کے تعلیمی مراکز میں چھٹی کا اعلان کردیا تھا تاہم اسکے باوجود گولیوں کی آواز سننے پر آس پڑوس کے ہزاروں لوگوں نے سرکاری فورسز پر سنگباری کرکے محصور جنگجووں کی مدد کرنا چاہی تھی مگر ہزاروں فورسز اہلکاروں کے سامنے انکی پیش نہ گئی۔
کیلورہ میں یہ جھڑپ سوپور کے ڈنگی وچھ میں ہونے والی ایک جھڑپ کے چند ہی گھنٹوں کے بعد ہوئی ہے۔ پولس کا کہنا ہے کہ سوپور کے مضافاتی علاقہ ڈنگی وچھ کے درسو گاوں میں جنگجووں کی موجودگی سے متعلق خبر ملنے پر جمعرات کی رات کو یہاں کا محاصرہ کیا گیا تھا۔بتایا جاتا ہے کہ جونہی فوج،پولس اور دیگر سرکاری فورسز نے اس مکان کا گھیراو¿ کرکے اس پر فائرنگ شروع کی کہ جہاں جنگجوو¿ں کے موجود ہونے کی خبر ملی ہوئی تھی۔چناچہ جنگجووں نے جواب میں گولی چلاتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم فورسز نے پہلے ہی ایک وسیع علاقے کو گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ایک پولس افسر نے بتایا کہ ایک جنگجو جھڑپ کی ابتداءمیں رات کے دوران ہی مارے گئے جبکہ انکے ساتھی نے صبح سویرے تک فورسز کو الجھائے رکھا تاہم صبح ہونے پر مکان پر بھاری ہتھیاروں سے شلنگ کرکے اسے گرادیا گیا اور یوں دوسرے جنگجو بھی مارے گئے۔مارے گئے جنگجووں کی شناخت ریاض احمد ساکن نصیرآباد سوپور اور خورشید احمد ملک ولد غلام نبی ملک ساکن نکس پلوامہ کے بطور ہوئی ہے اور دونوں کا تعلق لشکر طیبہ سے بتایا گیا ہے۔
پولس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جھڑپ کے دوران ایک فوجی اور ایک پولس اہلکار زخمی ہوگئے تھے جن میں سے فوجی اہلکار نے بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیا جبکہ زخمی پولس اہلکار کا علاج جاری ہے۔
سرکاری انتظامیہ نے جھڑپ شروع ہوتے ہی حسبِ معمول انٹرنیٹ سروس بند کرانے کے علاوہ جمعہ کیلئے علاقے کے تعلیمی مراکز میں چھٹی کا اعلان کردیا تھا تاہم اسکے باوجود گولیوں کی آواز سننے پر آس پڑوس کے ہزاروں لوگوں نے سرکاری فورسز پر سنگباری کرکے محصور جنگجووں کی مدد کرنا چاہی تھی مگر ہزاروں فورسز اہلکاروں کے سامنے انکی پیش نہ گئی۔فورسز اور جنگجووں کے بیچ جھڑپ کے دوران اور اسکے خاتمہ کے بعد بھی سوپور اور یہاں کے مضافات میں کئی جگہوں پر نوجوانوں کی کئی ٹولیاں سرکاری فورسز اور انکی تنصیبات پر سنگبازی کرتی اور نعرہ بازی کرتی رہیں جنکے خلاف سرکاری فورسز نے طاقت کا استعمال کیا تاہم کسی احتجاجی کے شدید زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ جھڑپ شمالی کشمیر کے ہی کپوارہ کے شمریال میں ہوئی اس جھڑپ کے محض چند گھنٹوں کے بعد ہی ہوئی ہے کہ جس میں حزب المجاہدین کے دو مقامی جنگجووں کو مار گرایا گیا تھا۔پولس کا دعویٰ ہے کہ دونوں کو ایک ناکے پر روکا گیا تھا کہ انہوں نے گولی چلائی اور ”جوابی کارروائی“میں مارے گئے۔
جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع میں بھی حالات اسوقت کشیدہ ہوگئے کہ جب یہاں کے ایک جنگجو کے سوپور میں مارے جانے کی خبر پھیل گئی۔خورشید احمد ابھی ابھی انجینئرنگ کی ڈگری مکمل کرچکے تھے اور انہیں جنگجووں کے ساتھ گئے چند ہی دن گذرے تھے کہ وہ مارے گئے۔چناچہ پلوامہ میں لوگوں نے زبردست احتجاجی مظاہرے کئے اور یہاں کے کئی علاقوں میں ہڑتال ہوگئی جبکہ کئی جگہوں پر نوجوانوں نے پولس اور دیگر سرکاری فورسز پر پتھراو کیا۔آخری اطلاعات ملنے تک شمالی اور جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں میں حالات کشیدہ بتائے جارہے تھے تاہم سرینگر میں ایک پولس ترجمان نے حالات کو قابو میں قرار دیا۔