سرینگر// بزرگ لیڈر سید علی شاہ گیلانی،مولوی عمر فاروق اور یٰسین ملک پر مشتمل ”مشترکہ مزاحمتی قیادت“نے الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت قیدیوں سے متعلق جنیوا معاہدے کا دستخط کنندہ ہونے کے باوجود بھی کشمیری قیدیوں پر مختلف مظالم ڈھا رہا ہے۔ریاست اور یہاں سے باہر کی جیلوں میں بند کشمیریوں کی ”حالتِ زار“کو اُجاگر کرنے کیلئے منعقدہ ایک سیمینار میں مزاحمتی قائدین و دیگر مقررنین نے کہا کہ سینکڑوں کشمیریوں کا”جموں کشمیر کے لوگوں کے حق کے لئے جدوجہد کرنے اور جموں کشمیر پر بھارت کی سوچ کے مخالف سیاسی نظریہ رکھنے کی پاداش میں ٹارچرکیا جاتا ہے اور انہیں تنگ کیا جا رہا ہے“۔
ایک مقامی خبر رساں ادارہ کے این این کے مطابق لبریشن فرنٹ کے لیڈر یٰسین ملک کی صدارت میں منعقدہ اس سیمینار میں اور لوگوں کے علاوہ تحریکِ حُریت کے چیرمین اشرف صحرائی نے بھی شرکت کی۔مقرنین نے سبھی قیدیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے کے علاوہ ”کاز کے تئیں انکی قربانیوں“کیلئے انہیں شکریہ کہا ۔انہوں نے کہا ہے کہ
دستخط کرنے والے ممالک میں شامل ہونے کی وجہ سے بھارت پراس معاہدے کی پاسداری لازم ہے”لیکن اس کے بالکل برعکس بھارت کشمیری اسیروں کو تنگ طلب کرنے، ان کے ایام ِاسیری کو طول دینے اور انہیں زیادہ سے زیادہ تکلیف میں مبتلا کرنے کےلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے آزما رہا ہے
جینوا معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل ہونے کی وجہ سے بھارت پراس معاہدے کی پاسداری لازم ہے”لیکن اس کے بالکل برعکس بھارت کشمیری اسیروں کو تنگ طلب کرنے، ان کے ایام ِاسیری کو طول دینے اور انہیں زیادہ سے زیادہ تکلیف میں مبتلا کرنے کےلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے آزما رہا ہے“۔ مقررین نے کہا ہے کہ جموں کشمیر کے اسیر ”ضمیر کے قیدی“ ہیںاور ”وہ بھی اقوام عالم کی اپنایت اور ہمدردی کے حق دار ہیں“۔ انہوں نے کہاہے کہ بھارت ایک جانب تو سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے لیکن دوسری جانب مختلف سیاسی سوچ رکھنے والوں کو محض سوچ رکھنے پر قید کررہا ہے۔
مقررین نے کہاہے کہ بھارت ایک طرف کشمیر میںمزاحمتی خیمہ کیلئے ”پولیٹکل اسپیس“ختم کرچکاہے اور دوسری جانب بڑی جمہوریت ہونے کا بھی دعویدار ہے لیکن”چت بھی میری اور پٹ بھی میری کی یہ متضاد سوچ یکجا نہیں چل سکتی ہے“۔مقررین نے امید ظاہر کی کہ عالمی برادری اور وہ لوگ جو انسانوں کے حقوق کےلئے فکر مندرہتے ہیںضرور کشمیریوں کی آہ و بکا کو سنیں گے اور کشمیری اسیروں کی زندگیاں اور ان کے مستقبل کو بچانے کی سعی کریں گے۔اتحاد و اتفاق کو مضبوط تر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مقررین ،جن میں سیاسی ،سماجی اور تاجر تنظیموں کے نمائندگان شامل تھے،نے کہاہے” جموں کشمیر کے لوگوں کی تحریک مزاحمت اپنے پیدائشی حق اور حق خودرادیت کے حصول کےلئے ہے اور ہ بحیثیت ایک قوم و ملت اتحاد و اتفاق ہی سے اپنی منزل کو پاسکتے ہیں۔ مشترکہ مزاحمتی قیادت کشمیریوں کے جذبات و احساسات کی ترجمان ہے اور ہمیںاس قیادت کے پیچھے شدومد کے ساتھ چلنا چاہئے اور اگر کسی معاملے یا مسئلے پر ہماری رائے ان سے مختلف ہو تو اسے عوامی حلقوں میں زیر بحث لانے کے بجائے خود ان کے پاس جاکر اس کا حل نکالنے کی راہ اپنانی چاہئے“۔
کیا آپ نے یہ پڑھا ہے؟